• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصہ پہلے "بہادر بنو، رسک لو" کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جو بہت پسند کیا گیا۔ اس کالم کا مدعا یہ تھا کہ ہمارے ہاں کوئی رسک نہیں لیتا، ہر کوئی پکی پکائی کھانا چاہتا ہے، اس حوالے سے اعتزاز احسن اور جاوید ہاشمی کی مثال دی تھی۔ اور جن لوگوں نے رسک لئے اور کامیاب ہوئے وہ قوم سے اپنی کامیابی کا اتنا زیادہ خراج مانگتے ہیں کہ قوم دینے سے قاصر ہے۔ اس ضمن میں ذوالفقار بھٹو اور عمران خان کی مثال بیان کی تھی جو یہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ خود ہڑپ کر جائیں اور کسی دوسرے کو کچھ نہ ملے۔ نواز شریف تو ایک حادثاتی لیڈر ہیں جو صنعتکاری کرتے ہوئے سیاست میں آ گئے اور سیاست کے میدان میں اپنی ایک صنعت کھڑی کر لی۔لیکن پاکستان بننے سے لیکر اب تک ہماری سیاست بانجھ ہی رہی۔ کوئی ایک لیڈر اسے نصیب نہ ہوا۔ کوئی ایک شخص جو صحیح عوامی جمہوری عمل سے گزر کر سیاست کے عروج پر پہنچا، صاف ستھری سیاست کی، خود بھی عزت کمائی اور ملک و قوم کو بھی کچھ نہ کچھ دے کر خالی ہاتھ رخصت ہو گیا۔ بھارت کی مثال دیکھ لیں تو قطار اندر قطار ایسے لیڈر نظر آئیں گے۔ بی جے پی کی سیاست اور سیاسی نقطہ نظر سے سخت اختلاف کے باوجود آپ واجپائی، ایڈوانی اور خود مودی کی ذاتی اور سیاسی زندگیوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ ساری عمر جنہوں نے سیاست کی، دو خالی ہاتھ ریٹائر ہو گئے اور تیسرا وزیر اعظم لیکن خالی ہاتھ۔ لیکن اس دوران بھارت دنیا کے غریب ترین، پسماندہ ترین اور جاہل ترین ملک سے دنیا کی سپر پاورز کے کلب میں پہنچ گیا۔ اور ہمارے لیڈر دیکھ لیں سرے محل، سوئٹزرلینڈ، دبئی، پانامہ، برٹش ورجن آئی لینڈ اور لندن کے مہنگے ترین علاقے انکے اعمال کے گواہ ہیں، اور ماشااللہ جو موصوف خودساختہ اپوزیشن بنے پھرتے ہیں اور پانامہ لیکس کے سرخیل انکے بارے میں تو بات کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ اور اس طرح کے لیڈروں نے پاکستان کو دنیا کے اوسط درجے کے ملک سے دنیا کے غریب ترین، پسماندہ ترین اور رسوا ترین ملک کا درجہ دلوا دیا ہے۔ ہمارے لیڈرز بغیر کسی کاروبار کے ملک کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں اور جو نہیں ہیں انکی امیر ترین اے ٹی ایم مشینیں دن رات روپے اگلتی ہیں اور جو کارنامے انہوں نے خیبر پختونخوا میں انجام دیئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ انہیں صرف موقع ملنے کی دیر ہے ورنہ امیر ترین لوگوں کی فہرست انکے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے۔یہ تاثر پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں ہیں یہ مافیاز کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اور ان سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے پاس تجربے(منفی)، وسائل(لوٹے ہوئے)، جوڑ توڑ، ساز باز ، سازش، موروثیت کے ہتھیار ہیں۔ ویسے بھی سیاسی ساکھ بنانا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں ہے اور پاکستانی معاشرے میں تو یہ اور بھی مشکل کام ہے کہ عوام سیاسی میدان میں کسی نئے شخص کو جگہ دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ بہت حد تک اسکی جڑیں ہزاروں سالوں میں ارتقا پانے والے معاشرتی ڈی این اے میں موجود ہیں جن میں حکمران طبقہ برہمن اور کھشتری کی شکل میں موجود تھا اور معاشرتی سطح پرلوگوں کی اسقدر برین واشنگ کر دی گئی کہ سیاست کرنا صرف حکمران طبقے کا کام ہے، عام آدمی اس بارے میں سوچے بھی نا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود بھارت نے اس معاشرتی ڈی این اے کو بدل کے رکھ دیا ہے جسکا غالب مذہب ابھی تک ہندو مت ہے اور پاکستانی لوگ مسلمان ہوتے بھی معاشرتی ڈی این اے تبدیل نہیں کر سکے جو ہندومت کی پیداوار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں سینکڑوں سیاسی جماعتیں ہیں اور جتنے صوبے اتنی ہی جماعتیں، قومی دھارے میں بھی بھارت نے نئی جماعت کو جگہ دی لیکن ہمارے ہاں نہ نئی سیاسی جماعت کو پذیرائی ملتی ہے اور نہ عوام سے سیاست میں آنےوالے کسی شخص کو۔ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران طبقے چوراچکے، نااہل، ناکارہ ہیں لیکن وہ انہی کو ووٹ دیں گے، انہی کو اقتدار میں لائیں گے۔ اس عوامی مزاج کی وجہ سے سیاسی مافیاز کی چاندی ہوچکی ہے۔
اعتزاز احسن اور جاوید ہاشمی جیسے لوگ اس عوامی مزاج سے واقف ہیں اس لئے اسے چیلنج نہیں کرتے اور موروثی شہزادے شہزادیاں جو اپنی اہلیت کے بل بوتے پر شاید کونسلر بننے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے، پارٹیوں کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ سربراہ بنے ہوئے ہیں۔ اعتراز احسن اور جاوید ہاشمی جیسے لوگ انکے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ جاوید ہاشمی اعتزاز احسن سے اس حوالے سے بہتر ثابت ہوئے کہ پہلے نواز شریف اور پھر عمران خان کی یوٹرن سیاست کے سامنے بغاوت کی لیکن اب آدھے راستے میں کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان سےکئی دفعہ گزارش کی کہ بہادر بنیں اور رسک لیں لیکن آمادہ نہیں ہوئے۔ایسے میں جسٹس وجیہہ نے ہمت کی ہے اور عمران خان کی سیاست کو بے نقاب کرنے کے بعد نئی پارٹی کی بنیاد رکھی ہے۔
جسٹس وجیہہ نے بتا دیا ہے کہ عمران خان، جہانگیر ترین، پرویز خٹک، علیم خان ایک گاڑی کے مسافر ہیں جبکہ جسٹس وجیہہ جیسے لوگ کسی دوسری منزل کے راہی ہیں۔ جاوید ہاشمی کہہ چکے ہیں کہ وہ جسٹس وجیہہ جیسے لوگوں کو دیکھ کر تحریک انصاف میں آئے، تھوڑی اور ہمت پکڑیں اور اپنی ساری عمر کے سیاسی تجربے کا وزن جسٹس وجیہہ کے پلڑے میں ڈال دیں۔ اعتزاز احسن سے تو یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتا کہ وہ سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن ہیں اور اسی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ حامد خان سے کہتا رہا کہ جسٹس وجیہہ اور جاوید ہاشمی کے ساتھ مل کر نئی پارٹی بنائیں لیکن وہ کہتے رہے کہ ابھی وقت نہیں آیا، انکا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا لیکن انکا وقت نہیں آیا۔ جسٹس وجیہہ نے وزیر اعظم نہیں بننا نہ ہی جاوید ہاشمی اور اعتزاز جیسے لوگ بن سکتے ہیں اور نہ ہی نئی سیاسی تحریکیں وزیر اعظم بننے کیلئے ہوتی ہیں۔ لیکن یہ لوگ اگر جاتے جاتے نئی سیاسی تحریک کے بیج بو جائیں تو شاید مستقبل میں ان سیاسی مافیاز سے قوم کو نجات مل سکے۔

.
تازہ ترین