• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ہر جانب جنگی بگل بج رہے ہوں تو امن کی بانسری کوئی بجائے تو کیسے؟ جہاں امن کے گیت گانے والوں کے کہیں منہ کالے کئے جاتے ہوں اور کہیں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہوں، وہاں امن کا جھنڈا بلند کرنا جان جوکھوں میں ڈالنا نہیں تو کیا ہے! کچھ ایسی ہی جسارت امن کی فاختائوں نے امرتسر میں پاک بھارت امن کانفرنس منعقد کر کے کی۔ حیرانی اس پر نہیں ہوئی کہ وہاں کسی نے دنگا فساد نہیں کیا، بلکہ خوشی اس پر ہوئی کہ جب لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نے برصغیر کے جنگ بازوں کی ملامت کی اور خطے میں امن و آشتی اور جھگڑوں کے پُرامن حل پر پُرزور اصرار کیا۔ یہ وہی امرتسر تھا جہاں ابھی کچھ ہفتے پہلے افغانستان پر ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان پر خوب نشتر برسائے گئے تھے اور گولڈن ٹیمپل حیران تھا کہ افغان حملہ آوروں کی اولاد ہندو بلوائیوں کے ساتھ کیوں شیر و شکر ہو رہی ہے۔ سافما، پاک بھارت دوستی منچ اور فوک لور اکیڈمی کے اشتراک سے امن کانفرنس کا انعقاد ایسا عجوبہ بھی نہ تھا کہ یہ لوگ دہائیوں سے امن کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ میں بھی لاہور سے دبے قدموں وہاں پہنچا کہ اک بار پھر نعرئہ مستانہ بلند کرنے میں کیا حرج ہے۔ کانفرنس کے شرکاء اور مقررین کی جو رائے بنی اور جو نکات میں نے بطور سیکرٹری جنرل سافما وہاں پیش کیے، اُس کا لب لباب قارئین کی نذر ہے۔
دونوں ہمسایوں کے جنگجو اور متعصب عناصر کے برخلاف، شرکا نے دونوں ملکوں کے عوام اور جمہوریت و امن پسند قوتوں سے اپیل کی کہ وہ سرحد پر جاری روزمرہ کی گولہ باری، سرحدوں کے آر پار پراکسی جنگوں، دہشت گردی اور مظلوم لوگوں (کشمیری و دیگر) پر ہونے والے جبر و استبداد کی روک تھام کے لئے آواز بلند کریں۔ کانفرنس کا تقاضا تھا کہ ہمہ گیر بات چیت کا سلسلہ بحال کیا جائے اور ایسا ماحول بنایا جائے جو باہمی جھگڑوں اور اختلافات کے حل میں معاون ہو۔ ہٹ دھرمی کے نظریہ ’’پہلے بڑے مُدے حل ہوں تو امن آئے گا‘‘ کو رد کرتے ہوئے، کانفرنس نے باہمی اعتماد سازی کو بڑھاوا دیتے ہوئے بات چیت سے ثانوی و مرکزی اختلافی مدوں کے حل پر زور دیا۔ اُس کی تجویز تھی کہ بات چیت کے لئے دہری حکمتِ عملی بھی اختیار کی جائے: بہتر ماحول کے لئے اقدامات اور مسائل کے حل کے لئے پہل قدمیاں۔ اس حکمتِ عملی کو دو سطحوں پر آگے بڑھایا جائے۔ اول: کشمیر، دہشتگردی، پراکسی جنگوں سے متعلق امور پر بات چیت دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین ہو اور جنہیں دونوں ملکوں کی سلامتی کے اداروں کی اعانت حاصل ہو۔ دوم: ہمہ گیر بات چیت (Comprehensive Dialogue) خارجہ سیکرٹریوں و دیگر افسروں کی سطح پر چلے۔ ہر دو سطح پہ بات چیت ایک دوسرے کے لئے معاون ہو، نہ کہ آگے بڑھنے میں رکاوٹ کا باعث۔ اور یہ کہ بات چیت نتیجہ خیز ہو، غیرمشروط ہو اور نہ ٹوٹنے والی ہو۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ حکومتیں انتہاپسند قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کریں اور جنگی ماحول پیدا کرنے والوں کی طنابیں کسیں۔ خاص طور پر میڈیا آگ لگانے سے باز رہے۔ امرتسر کانفرنس نے دو طرح کے اقدامات پر زور دیا۔ ایک وہ جو مثبت (Affirmative) ہیں اور دوسرے وہ جو سدباب (Preventive Measures) کا باعث ہوں۔
پہلے اُن اقدامات کا ذکر جو سدباب یعنی روک تھام کا باعث ہوں۔ (الف) دونوں حکومتیں، سلامتی کے ادارے اور میڈیا جنگجوئیت پسندی اور جنگی جنون کی روک تھام کریں۔ (ب) لائن آف کنٹرول اور دوسری سرحدوں پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کو بند کریں کہ سرحد کے دونوں جانب بسنے والے لوگ سکھ کا سانس لے سکیں۔ سرجیکل اسٹرائیکس اور محدود جنگ کی کوششیں صرف بڑی جنگ اور اُس سے بھی آگے باہمی طور پر تباہ کُن نیوکلیئر جنگ کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔ جبکہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ فقط دو طرفہ تباہی اور مکمل بربادی کا باعث تو ہو سکتی ہے، کسی ایک فریق کی فتح کے لئے نہیں۔ (ج) دہشت گردی بشمول سرحد پار پراکسی جنگیں جو دو اور سہ طرفہ طور پر جاری ہیں۔ وہ خطے کے امن و سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ان کے باعث عوام جنگ بازوں کے یرغمال اور ملکوں کے باہمی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ ایک دوسرے پر بہتان طرازی کی بجائے، حکومتیں ان عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچیں اور دہشت گردی کیلئے اپنی زمین، نہ دوسرے کی زمین استعمال کریں۔ ایک دوسرے کے خلاف غیرریاستی عناصر کی اعانت سے فائدہ صرف دہشت گردوں کا ہے جو ملکوں کے مابین اختلافات کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ (د) اقلیتوں سے تفریق برتنے کا چلن اور مظلوم لوگوں (بھارت میں کشمیری اور پاکستان میں بلوچ) کی جمہوری آواز کو بہیمانہ طور پر کچلنے کا سلسلہ بند ہو۔ یہ دونوں ملکوں کی جمہوری قوتوں کا فریضہ ہے کہ وہ مظلوم قومیتوں پر ہونے والے ظلم کا انسداد کریں اور اُن کے جمہوری حقوق کی پاسداری کریں۔ (ر) سفارتی توڑ تڑاخ اور ضدی پن (Bellicosity) جس میں دونوں ملکوں کے سفارت کار ایک دوسرے کے منہ پر اپنا اپنا بڑا مُدا (Core Issue) مارنے میں بہت مشاق ہیں، کو چھوڑنا ہوگا۔ بجائے اس کے کہ پاکستان صرف اور صرف کشمیر اور بھارت دہشت گردی دہشت گردی کا واویلا کرتا رہے، بہتر ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے بڑے حساس معاملوں کو بیک وقت بات چیت کی میز پر لائیں۔ (س) خطے کے تمام ممالک افغانستان میں اپنے اپنے سیکورٹی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی بجائے، سب مل کر افغانستان میں امن لانے کی کوشش کریں اور افغانستان کی سرزمین کو پراکسی جنگوں سے محفوظ کریں کہ پہلے ہی وہاں انتشار بہت ہے۔ (ص) عوام اور اشیاء کی سرحدوں کے آر پار آمد و رفت پہ لگائی گئی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ یہ تو وہ اقدامات ہیں جو ماحول کو سازگار بنانے اور اعتماد سازی کے لئے ضروری ہیں۔ اب اُن اقدامات کا ذکر جو تنازعات کے حل کے لئے ضروری ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں:
اول: بھارت اور پاکستان ایک مشترکہ سیکورٹی کمیشن تشکیل دیں (جس میں سلامتی کے اداروں کی بھرپور نمائندگی ہو) جو دہشت گردی اور دو/سہ طرفہ پراکسی جنگوں کی روک تھام کے لئے دور رس اور دو طرفہ اقدامات کریں۔ دوم: کشمیر پر ایک مستقل کمیشن کا قیام جو کشمیر کے مسئلے کا قابلِ اعتماد حل تلاش کرے جس سے کشمیریوں کی اُمنگوں کو چین ملے۔ سوم: پاک بھارت مستقل جنگ بندی کا معاہدہ جس کے تحت نگرانی اور عملداری کا موثر نظام تشکیل دیا جائے۔ اور جو جنگ بندی کی خلاف ورزی پہ مؤثر روک لگائے۔ چہارم: ماہرین اور شہریوں پر مشتمل ایک ایسے کمیشن کا قیام جو نیوکلیئر استحکام کو یقینی بنانے کے لئے ایسی تجاویز دے جس سے نیوکلیئر جنگ اور نیوکلیئر اسلحہ کے پھیلائو کا سدباب اور نیوکلیئر اسلحہ کی حفاظت کا بندوبست کیا جا سکے۔ پنجم: افغانستان میں پائیدار عمل کے لئے خطے کے ممالک میں اتفاقِ رائے کہ افغانستان امن کا گہوارہ بنے اور خطے کے ممالک کی علاقائی سلامتی اور سرحدوں کی نگرانی مؤثر کی جا سکے۔ ششم: پانی کے مسئلے کو وجۂ نزع نہ بنایا جائے اور سندھ طاس معاہدے پر اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔
ہفتم: منموہن حکومت اور زرداری حکومت کے مابین ہونے والے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے جائیں اور سارک کے معاشی یونین کے نظریہ کو سامنے رکھتے ہوئے، جنوبی و وسطی ایشیا کے مابین تجارت، ذرائع رسل و رسائل کی ترقی اور توانائی کے بہائو کو یقینی بنایا جا سکے۔ نہم: وسیع ایشیائی خطے خاص طور پر جنوبی وسطی ایشیا، چین، ایران وغیرہ کو ایک ایشیائی سلامتی کے معاہدے میں شامل کیا جائے تاکہ اس خطے کو اندرونی و بیرونی خلفشاروں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ گوادر اور چاہ بہار دوستانہ بندرگاہیں بنیں اور چین پاکستان اکنامک کاریڈور سے سبھی مستفید ہو سکیں۔یہ نکات اور اقدامات فقط امن کی فاختائوں کی خواہش نہیں بلکہ نہایت قابلِ عمل ہیں۔ راستے دو ہی ہیں۔ مکمل باہمی تباہی اور عوام کی مفلسی برقرار رکھنے کی راہ یا پھر امن و آشتی، ترقی اور عوامی خوشحالی کی راہ۔ جب ہر جانب جنگ کے بگل بجائے جا رہے ہوں تو امن کی طوطیوں کی آواز اُٹھانے میں ہی تو عافیت ہے۔



.
تازہ ترین