• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کیسے بنا؟ پاکستان کیوں بنا؟ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ یہ سب سوال آج اس لیے بھی زیادہ اہمیت حاصل کر گئے ہیں کہ آج ہم نظریے، مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر اتنے بکھر گئے ہیں کہ ان سوالات کا جواب تلاش کرنا بے حد اہم ہوگیا ہے۔ ان سب کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ خود قائداعظم کیا چاہتے تھے۔ جن لوگوں نے اس نظریے کی ترویج کی ہے کہ پاکستان مذہب کے نام پر بنایا گیا اور قائداعظم خود بھی یہی چاہتے تھے انہوں نے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کو یا تو نظر انداز کردیا ہے اور یا کوشش کی ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے۔
قائداعظم نے پاکستان کے لئے جو قربانیاں دیں ان کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے لیکن ان کے بعدماضی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ و سیاسی اشرافیہ نے ایسی چالیں چلیں کہ پاکستان دولخت ہوگیا اور قومیتیں آپس میں ٹکرا گئیں۔ ان سوالات کا جن کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے کا جواب مختلف انداز میں دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک تلاش حسن جعفر زیدی کی بھی ہے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ اور سیاست کو سمجھنے کے لئے قلم اٹھایا ہے۔ میں انہی کے کچھ خیالات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اس فکر کے ساتھ کہ اس سب کو ذرا ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ بہت کچھ بگڑ گیا ہے لیکن اگر ہم اب بھی سنبھل جائیں تو شاید باقی بچے پاکستان کوسنبھال لیں۔
’’ان سوالات کے جواب میں مخصوص حلقوںاور حکمران طبقوں نے ایسی تشریحات کی ہیں کہ جن کی بدولت اس ملک میں خون کی ندیاں بہائی گئی ہیں۔ یہ تشریحات کچھ یوں ہیں۔
’’پاکستان مذہب کے نام پر بنا اس لئے یہاں مذہبی نظام ہونا چاہئے‘‘۔
’’پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اس کی جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔
اور پھر نظریہ کے نام پر ہم نےایسی سیاسی اور مذہبی قوتوں کو فروغ دیا جنہوں نے آمریتوں کو پروان چڑھایا۔ طالبان پیدا کئے دہشت گرد اور خودکش بمبار پیدا کئے جن کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد اسٹیبلشمنٹ اور اینگلو امریکی سامراج دونوں کو اس نظریہ سازی کی شدید ضرورت پڑ گئی تھی۔ امریکی صدر ٹرومین نے کمیونسٹ بلاک کی حصار بندی کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کا نظریہ Truman Doctrine پیش کیا تھا۔ امریکی سامراجیوں نے پاکستان کو بوجوہ جغرافیائی پوزیشن کہ یہ روس اور چین دونوں کے قریب واقع تھا، اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کمیونسٹ مخالف حصار بندی میں اہم حیثیت دے دی تھی۔ ماضی کی ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اس بیانیہ کی اس لئے ضرورت پڑی کہ پاکستان میں شامل ہونے والی جن قومیتوں کی اسٹیبلشمنٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی یعنی بنگالیوں، سندھیوں، پٹھانوں اوربلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاسکے۔ وہ جب اپنے حقوق کی آواز بلند کریں تو انہیں ’’قومی نظریہ ‘‘ کا مخالف قرار دے کر ان کی آواز کو دبایا جائے۔ اسی طرح محنت کش طبقے جب اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں یا عوام الناس اپنے معاشی، معاشرتی اور جمہوری حقوق کا مطالبہ کریں تو انہیںبھی مذہب اور نظریہ کے نام پر دبا دیا جائے۔
نظریہ کے نام پر ایک مخصوص ’’بیانیہ‘‘ گھڑنے کے لئے قیام پاکستان کی ایک ایسی تاریخ تشکیل دی گئی جس میں اصل تاریخ بالکل مسخ ہو کر رہ گئی۔ اس مقصد کےلئے 1906میں مسلم لیگ کے قیام سے 1947 تک بہت سے واقعات کو توڑمروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کیا گیا۔ نہ تو بین الاقوامی تناظر بتایا گیا اور نہ ہی برصغیر میں موجود اپنے اپنے مفادکے لئے برسرپیکارقوتوں کی جدلیات کو بیان کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں تین بڑی قوتوں کے مابین جدل چل رہا تھا۔ انگریز، ہندو اور مسلمان۔ ہر ایک اپنے مفاد اور بقا کی جدوجہد کر رہا تھا۔ انگریزوں کو اپنا سامراجی مفاد عزیز تھا جسے وہ برصغیر سے رخصتی کے نتیجے میں کھونا نہیں چاہتے تھے۔ ہندو جلداز جلد انگریز کی بنائی ہوئی مضبوط مرکزی حکومت پر قبضہ کرکے پورے ہندوستان پر غلبہ چاہتے تھے جس میں مسلمان خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہے تھے اور ان کے ایسا سمجھنے میں ہندو اکثریت کی نمائندہ جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت کا تنگ نظر رویہ بھی شامل حال تھا۔ ان حالات میں مسلمان متحدہ ہندوستان کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی، معاشی و معاشرتی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے بالخصوص برصغیر کے مغرب اورمشرق میں جہاں وہ اکثریت میں تھے۔ وہ اپنی بالادستی چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے مسلم لیگ نے 1946میں متحدہ ہندوستان کے دائرے میںرہتے ہوئے وزارتی مشن منصوبہ منظور کیااور 1947کے اوائل تک اس پر عملدرآمد کے لئے کوشش کرتے رہے۔ جس طرح برصغیر کی تقسیم کی گئی کہ جس میں بنگال اور پنجاب کو بھی تقسیم کردیا گیا۔ مسلم لیگ کی قیادت کو کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا تھا۔ قائداعظمؒ اس تقسیم کو کٹی پھٹی، کرم خوردہ اور ناقابل عمل قرار دیتے تھے۔ ان کی اولاََ ترجیح متحدہ ہندکے دائرے میںرہتے ہوئے اپنے حقوق کے تحفظ کا حصول تھا جبکہ علیحدہ مملکت کا مطالبہ بعد ازاں کیا گیا تھا اور وہ بھی ایسا پاکستان کہ جس میں بنگال و پنجاب منقسم نہیں تھے اور اس پاکستان میں کم از کم چالیس فیصدغیر مسلم آبادی شامل تھی۔ اس مملکت پریقیناً کسی تھیوکریٹک ریاست کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تمام تناظر میں برصغیر میں نبردآزما تینوں بڑی قوتوں، انگریز، ہندو اور مسلمان کی جدلیات کی مثلث سے وابستہ تمام حقائق و شواہد کو جمع کیا جائے اور پھر جو نتیجہ خودبخود منطقی طور پر نکل کر سامنے آئے اسے معروضی طور پر پیش کر دیا جائے تب ہی ہم جان سکیں گےکہ یہ یقیناً ایک تھیو کریٹک ریاست کا قیام نہیں ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر اس ملک میں مذہبی انتہاپسندی، جنونیت اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا بازار گرم کردیا گیا ہے۔




.
تازہ ترین