• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ہفتے پہلے، لاہور کے مقامی ہوٹل میں جسٹس میاں ثاقب نثارنے جوڈیشل ایکٹوزم پر اپنے تحفظات کا اظہارٹھونک بجا کر کیا۔ عسکری قیادت تبدیل ہو چکی،چند دنوں بعدنامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، کورٹ نمبر 1کی سربراہی سنبھال لیں گے۔پاکستان کے پاس ان دو اداروں کے سوا بچا ہی کیا ہے۔دو ادارے، دو نئے سربراہ ضرور، سپریم کورٹ کے چیف اور فوج کے چیف میں بنیادی فرق ہے۔ سپریم کورٹ کے سربراہ کی رائے برادر ججوں کے برابرصرف انتظامی سربراہ، جبکہ فوج کا سربراہ ہمہ مقتدر ، ادارہ ایک اشارہ پر جان نچھاور کرنے کا پابند۔ سپریم کورٹ ایک آزاداورخودمختار ادارہ، آئین پاکستان آزاد عدلیہ کا ضامن غیر معمولی تحفظ دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے سربراہ کے چنائو کے رہنماء اصول خود مرتب کر رکھے ہیں۔سپریم کورٹ صرف اور صرف آئین اور قانون کے ماتحت ہے۔افواج پاکستان بمطابق آرٹیکل (1) 243،کمانڈ اور کنٹرول فیڈرل گورنمنٹ کے پاس ہے۔ بمطابق آرٹیکل 243(4) صدر پاکستان افواج کے سپریم کمانڈر ہیںاور چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ دو نئے چیفس کے دائرہ کار اور اختیارات برسبیل تذکرہ ہی تھے۔اصل موضوع سپریم کورٹ کی طاقت، دائرہ کارواختیاربمطابق آئین وقانون جائزہ وتجزیہ ہے۔ایک دفعہ پھر دہرا دوں، کوئی ادارہ بھی حتی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان، آئین سے تجاوز کرسکتاہے اورنہ ہی کسی قانون کو بائی پاس ۔ دنیا بھر میں اور پاکستان میں ، عدالتیں ، کورٹ آف لا کہلاتی ہیں ناکہ کورٹ آف جسٹس۔ مزید براںعدالتیں آئین قانون اور پروسیجرز کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہیں ۔ سپریم کورٹ کریمنل کورٹ نہیں کہ ٹرائل کرسکے، ماسوائے توہین عدالت کے کیس میں۔ آرٹیکل 184،( Original Jurisdiction) آغاز سے موجود سپریم کورٹ کا نظام انصاف، دائرہ اختیار اور عملداری کی حدود وقیود کا تعین کرتا ہے۔ آرٹیکل (3)184کے بے دریغ استعمال کا دوسرا نام ’’جوڈیشل ایکٹوزم ‘‘ کہلایا۔ آرٹیکل (3)184، سپریم کورٹ کوپبلک اہمیت کے ایسے معاملات جو بنیادی حقوق سے متعلق ہوں، ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار بمطابق آرٹیکل 199،اپنے دائرہ کارمیںلاسکتاہے۔ماضی میںیہ آرٹیکل ماسوائے معدودے چند، عرصہ تک ناآزمودہ ،ساکت وغیر فعال رہا۔ پچھلے چند سالوں سے، Public Interest Litigation کے نام پر فراخدلانہ استعمال دیکھنے کو ملا۔ (3)184صراحت کے ساتھ Original Jurisdiction کو صرف پبلک اہمیت کے ایسے مقدمات جو بنیادی حقوق آرٹیکل (8 تا28)سے متعلق ، تک محدود کرتا ہے۔ثابت رہا، عدالت کی متعلقہ تکنیکی شناسائی ، جان کاری بھی ناکافی تھی۔ بدقسمتی سے ، آرٹیکل کا استعمال ،عدالت عظمیٰ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان بھی لاکھڑا کرتا ہے کہ سپریم کورٹ پارٹی ،گواہ اور وکیل کا روپ دھار لیتا ہے۔آرٹیکل199، ثبوت کا بوجھ درخواست گزار پر ڈالتا ہے جبکہ(3)184میں لامحدود اختیارات کواس اصول سے استثناء ،صفائی کنندہ پر بھی ذمہ داری ڈال دیتا ہے۔پانامہ کیس میں، درخواست گزار اور عدالت عظمیٰ دونوں یہ کہتے سنے گئے کہ ’’صفائی کنندہ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی‘‘۔ تمام دنیا میں رائج بنیادی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایک لحاظ سے (3)184سسٹم ، قاعدہ ، قانون کے الٹ چلتا ہے۔ سپریم کورٹ پارٹی، تفتیش، گواہ سب کچھ ،وکیلوں کی طرح جرح بھی کرنی پڑتی ہے۔
چند ماہ پہلے، نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بغیر الفاظ چبائے، یہی کچھ فرمایا، ہمیں’’جوڈیشل ایکٹوزم کے ماحول سے باہر نکلنا ہوگا‘‘۔مثال کے طور پر پانامہ لیکس کیس کسی طور بنیادی حقوق آرٹیکل (8تا28) کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ایسے کیس جوڈیشل ایکٹیوزم کے زمرے میں آئیں گے۔ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھونس، دھاندلی ، بلیک میلنگ ، دبائوآئین وقانون کو بائی پاس کر ہی نہیںسکتا۔ عمران خان کا دعویٰ، ’’احتجاجی تحریک کے دبائو میں سپریم کورٹ سننے پر مجبور ہوا‘‘، ایسا تاثر ہی پریشان کن ۔ جس دن سپریم کورٹ نے اس نوعیت کی کئی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کیں، عمران خان نے ڈنکے کی چوٹ پر فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ’’سپریم کورٹ نے آپ لوگوں کے دبائو میں آکر ہماری اپیل سماعت کے لیے منظور کی‘‘۔پچھلے دنوں جب نامزد چیف جسٹس نے ’’جوڈیشل ایکٹوزم ‘‘کو آڑے ہاتھوں لیا تو منسلک خرابیوں اور سقم کو اجاگررکھا ۔ تین دن پہلے نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے اپنے موقف اور ارادوں کودوٹوک الفاظ میں واضح رکھا ، ’’خوف کا شکار ہونگے نہ مصلحت کا۔ عدالتوں کاوقار بحال کریں گے۔ فیصلوں میں شفافیت نظر آئے گی‘‘۔نامزد چیف جسٹس کے غیر مبہم الفاظ حوصلہ دے گئے۔پانامہ لیکس پر دھونس، دھاندلی، دبائو ، بلیک میلنگ پر خاطر خواہ کامیابی، منہ کو خون لگ چکا تھا۔ایسے لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پرڈھٹائی کے ساتھ اعلیٰ عدالتوںپر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ دو ہفتے پہلے، ادھرسپریم کورٹ نے ’’پانامہ لیکس‘‘ کیس کو اگلے انتظامی سیٹ اپ پر موخررکھا۔ ادھر سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے خلاف طوفان بدتمیزی، سونامی بن کر امڈ آیا۔مغلظات آلود زبانیں کئی میل دراز نظر آئیں۔کل سے ایک تصویر چھوت بیماری مانند،سوشل میڈیا پر چھاچکی ہے ۔ تصویر میں نوازشریف کے ساتھ اقبال ظفر جھگڑا خوش گپیوں میں منہمک دکھائی دئیے۔ جانتے بوجھتے، جھوٹ کے بیوپاریوں نے اقبال ظفر جھگڑا کو نامزد چیف جسٹس بنا کر پیش کیااور بے ہودہ کلمات ساتھ جوڑ دئیے۔اتوار کے دن صوابی کے جلسے میں عمران خان مزید تعفن پھیلا گئے، ’’ہم ہر ادارے کے پاس گئے (جھوٹ) ہمیں انصاف نہیں ملا۔ اب ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا ہے۔ اگر ہمیں وہاں سے بھی انصاف نہ ملا توپھر ہم عوام کے پاس جائیں گے‘‘۔عدالتوں پر اس انداز کادبائو کہ مرضی کا فیصلہ ملے ، ایک مجرمانہ فعل ہے۔ کیا عمران خان ایک سکہ بند مجرم بن چکا ۔
یقین ہے عدالت عظمیٰ ایسے غیر سنجیدہ رویوںپر کان نہیں دھرے گی۔ اپنی ترجیحات کا پیمانہ بڑا اورمعیار اونچاہی رکھے گی۔ایسے حالات میں نامزد چیف جسٹس کی دو آبزرویشن ، جوڈیشل ایکٹوزم کو محدود رکھنا ہوگا اور کسی قسم کی مصلحت ، دبائو کا شکار نہ رہنا، بادنسیم کا بھرپور جھونکا ہی جانیں۔ نامزد چیف جسٹس ، بھلے مانس جج کے نابغہ روزگار بیٹے ہیں۔ 40 سال سے ہر نوع اور مختلف فیلڈز میں اپنی وکالت اور جسٹس کا لوہا منوا چکے ہیں۔ عزت مآب جناب جسٹس صاحب آپ سے بہت امیدیں بندھ چکی ہیں۔ آئین پاکستان کی کئی دہائیوں سے درگت بن رہی ہے۔ اگر عزت مآب اگلے چھ ماہ میں آئین پاکستان کو اس کی اصلی روح کے مطابق نافذکر جائیں ۔ قانون کی عملداری مؤثر بنا دیں تو تاریخ سنہرے حروف سے یادرکھے گی۔ آئین کی روح ’’قرارداد مقاصد‘‘ کو پس پشت ڈالے دہائیاں بیت گئیں۔ آئین کی اساس عدلیہ کی آزادی پر رکیک حملے آئے دن کا معمول بن چکا۔ نامزد چیف صاحب !آپ کو حکمرانوں سمیت معاشرے کے تمام طبقوں کو آئین اور قانون کی تابعداری میں لائیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بغیر لحاظ عہدہ جیل میں ڈالنا ہوگا ۔
بمطابق آئین اردو زبان نے 1988 تک لیٹر اور سپرٹ میں نافذ ہونا تھا،سازش کے تحت غریب الوطن بنا دی گئی ۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے حکومت کو پابند بنایاتھاکہ’’ تین مہینے میں نفاذ ممکن بنائے‘‘، کئی مہینے بیت گئے۔ 19کروڑ لوگ دوہرےنظام تعلیم کی وجہ سے مملکت خداداد اسلامیہ میں پردیسی بن چکے ہیں۔ 19 کروڑ لوگ غیر مؤثر ، مملکت کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ چند ہزار انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ مستفید ہورہا ہے ،مملکت کو بچا لیں۔ جوڈیشل ایکٹیوزم ترجیح نہیں، آئین پاکستان کی عملداری درکار، عزت مآب کی پہلی ترجیح بننی ہوگی ۔

.
تازہ ترین