• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ نے کائنات کواتنا خوبصورت کیوں بنایا؟ چمکدار سُورج ، چاندنی بکھیرتا چاند ، ٹمٹماتے ستارے اور جھلمل کرتی کہکشائیں آسمانوں پر آویزاں کیوں کی گئیں؟ زندگی کے لئے زمین کا چناؤہی کیوں؟ پھر زمین پر سمندر، دریا، پہاڑ، جھیلیں، درخت، پھول، پھل اور دوسرے انمول تحائف کس کے لئے ترتیب دئیے گئے؟ اگرہم ان سولات کے جواب تلاش کرنے کی تحقیق میں جائیں تو ہمارا ایمان ہمیںگواہی دے گا کہ یہ سب کچھ اللہ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی آمد کے لئے پیدا کیا۔ اللہ کے ہاں عبادت کرنے کے لئے فرشتوں سمیت بہت سی ایسی مخلوقات ہیں جن کی تعدادکا شمار کرنا مشکل ہے، لیکن اُن تمام پر اللہ نے انسان کو فوقیت دی اور اُسے اشرف المخلوقات کا رُتبہ مل گیا۔ انسان کو دوسرے انسان کے لئے پیدا کیا گیا، حقوق العباد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح قوانین مرتب کر دئیے ،پھر بھی انسان اللہ کی تلاش اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی طرف مائل ہونے کی بجائے دوسرے انسانوں کے عیبوں اور برائیوں کی تلاش میں چل نکلا ہے، جو اللہ کی تلاش میں سرگرم عمل رہے انہیں اللہ مل گیا اور وہ غوث الاعظم، داتا علی ہجویری، بابا فرید شکر گنج، معین الدین چشتی اور باباحاجی علی کے ناموں سے پہچانے گئے۔انسان اپنے اُوپر نہ تو توجہ دیتا ہے اور نہ ہی وہ مقصد تلاش کرتا ہے جس کے لئے اُسے زمین پر پیدا کیا گیا۔ انسان دوسروں کے گناہ اور ثواب کا فیصلہ کرنے پر تُلا ہوا ہے ، وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے خود پارسا بن کر دوسروں کے بارے میں فتوے جاری کرنے کو اپنا فرض سمجھتا اورانسانیت سے نکل کر خدائی کا دعوے دار بننے کی ناکام کوشش کر رہاہے۔
خُدا ہیں لوگ، گناہ و ثواب دیکھتے ہیں
سو ہم تو روز ہی روزِ حساب دیکھتے ہیں
مغربی ممالک کے لوگ بے شک خُدا سے دُور ہیں لیکن قدرت کی طرف سے انہیں ہم سے زیادہ انعامات سے نوازا جا رہاہے جس کی اولین وجہ یہی ہے کہ وہ حقوق العبادکی ادائیگی کو ہی عبادت سمجھتے ہیں۔ اسپین میںمقیم ساجد حسین بارسلونا کے ایک اسپتال میں تپ دق کے معائنے کے لئے جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اُس کا دل کسی وقت بھی بند ہو جائے گا اُسے انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے۔ روز بروز ساجد کی طبیعت بگڑتی جاتی ہے، ڈاکٹرز کا بورڈ فیصلہ کرتا ہے کہ اگر ساجد کا دل ٹرانسپلانٹ نہ کیا گیا تو یہ وفات پا جائے گا۔ ساجد حسین کہ جس کا کوئی رشتہ دار اسپین میں نہیں اُس کو مصنوعی سانس کے ذریعے مقامی اسپتال میںزندہ رکھا جاتا ہے۔ وہ بے ہوش ہے دل ختم ہو چکا ہے مشین کے ذریعے مصنوعی سانسیں چل رہی ہیں۔ڈاکٹرز ساجد کے دوستوں کو کہتے ہیں کہ ہم چھ ماہ تک اسے مشینوں پر زندہ رکھ سکتے ہیں اگر ان چھ مہینوںمیں کسی مرنے والے نے اپنا دِل عطیہ نہ کیا تو ہم مصنوعی سانس کی مشین اُتار کر میت آپ کے حوالے کر دیں گے۔ساجد حسین اسپین میں غیر قانونی رہائش پذیر تھا، اُس کو ہسپانوی رہائش اور کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ دِل کو ٹرانسپلانٹ کرنے میں پاکستانی دو کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں، اسپتال اور ادویات کا خرچ علیحدہ سے دینا ہوتا ہے، اتنا پیسہ تو دُور کی بات ساجد حسین کے پاس تو لیگل کاغذات بھی نہیں، بیوی بچے گجرات میں رہ رہے ہیں، ایسے حالات کے باوجود ساجد حسین کا علاج بغیر فیس یا کوئی پیسہ لئے بغیر جاری ہے ، تین دن بعد ساجدکو لگائی گئی مصنوعی سانسوں کی مشین اُتارنے کا ڈاکٹری فیصلہ آگیا، اللہ کی قدر ت د یکھیں کہ اسپین کے دارلحکومت میڈرڈ میں ایک غیر مسلم اپنا دِل عطیہ کرتا ہے، ساجد کے خون کا گروپ اُس سے مل جاتا ہے، دِل ٹرانسپلانٹ کرنے کے لئے میڈرڈ سے فوری طور پر ہیلی کاپٹر میں بارسلونا بھیجا جاتا ہے، ڈاکٹرز کی ٹیم ساجد کے دوستوں سے پوچھتی ہے کہ چونکہ مریض مسلمان ہے اور دل عطیہ کرنے والا غیر مسلم تو کیا اِس دل کی ٹراسپلانٹیشن میں کوئی مذہبی پابندی یا رکاوٹ تو نہیں؟ دوست کوئی جواب نہیں دے پاتے، ڈاکٹرز کی ٹیم دِ ل ٹرانسپلانٹ کردیتی ہے،مصنوعی سانسوں کی مشین اُترتی ہے، ساجد ہوش میں آتا ہے، ڈاکٹرز کے لکھے گئے خط پر مقامی حکومت اُسے اسپین کا شہری مانتے ہوئے رہائش کے قانونی کاغذات دے دیتی ہے، ساجد اکیلا ہے بیمار ہے وہ اُداس نہ ہو اِس لئے اُس کے بیوی بچوں کو پاکستان سے ویزے لگوا کرحکومتی اخراجات پراسپین بلایا جاتا ہے تاکہ ساجد کا اکیلا پن دُور ہو۔ اِس سارے عمل کی نہ تو کوئی فیس لی جاتی ہے، نہ کسی قسم کی کوئی شرط رکھی جاتی ہے بلکہ ساجد کو رہائش اور ماہانہ خرچ بھی دیا جانا شروع ہو جاتا ہے۔ آج ساجد حسین بارسلونا کی معروف شاہراہ ’’ رامبلہ ‘‘ پر پھولوں کی دُکان چلا رہا ہے۔ ہسپانوی ڈاکٹرز اس مریض کو اپنا معجزاتی شاہکار تصور کرتے ہیں وہ ساجد کو وقت پر دوائی کھلاتے اور اُس کا باقاعدہ چیک اپ کرتے ہیں۔ انسانیت کی قدر اور خدمت اب اِس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے۔ انصاف کریں کہ غیر مذہب اور غیر ملکی کمیونٹی ہمارے ساتھ کتنا اچھا برتاؤ کرتی ہے جبکہ دُوسری طرف تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہماری اپنی حکومتیں کوئی اقدام نہیں کر رہیں ۔ تارکین وطن کی جانب سے بھیجا جانے والا زر مبادلہ اوورسیز پاکستانیوں کو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے لقب سے تو نوازتا ہے لیکن اِسی ہڈی کے خراب مہروں یعنی (مسائل ) کا حل تلاش نہیں کرتا۔ ہمارے حکمران ملک و قوم کے لئے خُدا بنے بیٹھے ہیں، کوئی نہیں سوچتا کہ تارکین وطن پاکستانی کتنی مشکل سے محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہے ہیں بلکہ یہ حکمران تو کبھی شناختی کارڈ، کبھی پاسپورٹ کی تجدید اور کبھی کبھار دیار غیر سے پاکستان بھیجے گئے کاغذات کی تصدیق میں تاخیر کرکے اوورسیز کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔دوسرے ممالک میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کو اپنی کمیونٹی کی خدمت اور دوسرے ممالک کے ساتھ ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کی بہتری کے لئے ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن اس کے برعکس ان کاپاکستانی کمیونٹی کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک ہے ۔شکایت کریں تو کہا جاتا ہے کہ خاموش رہوسب دیکھتے جاؤ اور سہتے جاؤ ۔
جینے کی ہے تاکید ہمیں زہر پلا کر
ظالم یہ سمجھتا ہے وہی جیسے خُدا ہے
انسان خُدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشہ بھی خُدا دیکھ رہا ہے

.
تازہ ترین