• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی‘ نیٹو کمانڈرز نے اوباما انتظامیہ سے مزید فوج مانگ لی‘ خراب صورتحال کے پیش نظر امریکی فوجیوں کو یہیں برقرا ر رکھا جائے ’’جنرل کینبل‘‘۔ ضلع سنگین کاقبضہ چھڑانے کیلئے امریکی فضائیہ بھی بری فوج کے ساتھ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ’’جنگ‘‘ کے سال 2015ء کے آخری دن کی شہ سرخی ہے‘ اسی صفحے پر ایک دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’افغان پولیس کا ہلمند میں طالبان کیخلاف لڑنے سے انکار‘‘ ۔ 26پولیس اہلکاروں نے طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے۔ جس دن یہ دونوں خبریں اخبارات کی زینت بنیں‘ اسی دن دوپہر ٹیلی وژن کے خبرنامے میں وزیر دفاع کے حوالے سے بتایا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کیلئے 16جنوری کو چار فریقی اجلاس ہوگا۔ جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایجنڈہ اور طریقہ کار طے کیا جائیگا۔ مذکورہ چار فریق پاکستان‘ افغانستان‘ امریکہ اور چین ہیں۔ امریکہ کے صدر باراک حسین اوباما نے اپنے دوسرے عرصہ صدارت کے انتخابات میں امریکی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دسمبر 2015ء تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے۔ بعد میں افغان حکومت کے مسلسل اصرار اور افغانستان کی سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر دس ہزار فوجی مزید ایک سال تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا گیا‘ صدر اوباما عہدہ صدارت چھوڑنے سے پہلے یعنی رواں سال کے آخر تک ان فوجیوں کوواپس بلانا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی یک طرفہ فوج کشی کے چودہ سال پورے ہو چکے ہیں لیکن امریکہ کی طرف سے بنائی گئی حکومت‘ تیار کی گئی فوج‘ نیٹو کی براہ راست موجودگی کے بغیر ایک دن بھی افغانستان میں اپنی حکومت قائم نہیں رکھ سکتی۔ افغانستان میں حکومت اور فوج سول انتظامیہ کی بقا کا انحصار طالبان کی مرضی ہے یا پھر امریکہ کو قبضہ برقرار رکھنے کیلئے نامعلوم عرصہ تک نہ صرف موجود اپنی افواج کو رکھنا ہوگا بلکہ افواج کی سیکورٹی کیلئے اپنی بری اور فضائی افواج میں اضافہ بھی کرنا پڑے گا۔روس نے افغانستان پر دسمبر 79 19ء میں چڑھائی کی اور صرف ایک سال کی مدت میں اس کے ایک لاکھ آٹھ ہزار لڑاکا فوجی‘ ٹینک‘ بکتر بند گاڑیاں‘ ہیلی کاپٹر‘ جنگی جہاز‘ افغان سرزمین پر موجود تھے لیکن وہ افغانستان کے بیس فیصد رقبے پر بھی قبضہ نہیں کر پائے۔ اسی طرح امریکہ نے فضا سے بمباری کے کر کے افغانستان کے طول و عرض کو کھدیڑ ڈالا‘ افغانستان کے اندر موجود دوسرے جنگجو گروپ ’’شمالی اتحاد‘‘ کی مدد سے کابل پر قبضہ کیا‘ جو طالبان امریکی بمباری کے دوران پہلے ہی خالی کر چکے تھے۔ افغانستان پر قبضہ مکمل کرنے اور اسے اپنی کٹھ پتلی حکومت کیلئے ’’پرامن‘‘ بنانے کی خاطر چاروں عالمی طاقتوں اور 63 ملکوں کی براہ راست مدد کے ساتھ دو سال پہلے تک ’’امریکہ کی سربراہی میں‘‘ ایک لاکھ اڑتیس ہزار فوجی افغانستان میں طالبان کیخلاف کارروائیوں میں شریک تھے۔ جوں جوں غیرملکی فوجیوں کی تعداد بڑھتی گئی‘ طالبان کی کارروائیوں میں کمی کی بجائے ان کی شدت میں اضافہ ہوتا گیاا ور غیرملکی فوجیوں کی ہلاکتوںکی تعداد بھی زیادہ ہوتی چلی گئی۔ ’’پائے رفتن نہ جانے ماندن‘‘ ۔ اب امریکہ کے پاس یہاں قیام کی ہمت ہے نہ نکل بھاگنے کا آبرومندانہ راستہ۔ سوائے اس کے کہ طالبان کے ساتھ کوئی قابل قبول سمجھوتے کی صورت پیدا ہو۔ یہ افغانستان کی آج تک کی اصل صورتحال ہے۔ پاکستان کے وزراء اور حکومتی ترجمانوں کے ہاں غور و فکر کا افلاس تو ہے ہی مگر مناسب لفظوں کے انتخاب کا سلیقہ بھی اب تک نہیں سیکھ پائے۔ وزیر دفاع نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے نہ صرف افغان مسئلے پر چار فریقوں کے اجلا س کا بتایا جو 16 جنوری کو ہونے جا رہا ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم طالبان پر مذاکرات کیلئے دبائو ڈالیں گے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ افغانستان میں جاری تنازعات میں پاکستان فریق ہے نہ چین بلکہ زیادہ صحیح تو یہ ہوگا کہ افغان حکومت بھی اس میں فریق نہیں‘ اس معصوم کو کسی نے لا بٹھایا اور یہ اقتدار کے شوق میں بیٹھ گئی‘ اسے یہ کب معلوم تھا کہ جسے وہ پھولوں کی سیج سمجھی ہے وہ کانٹوں کا ہارہوگا ‘جو گلے پڑ گیا ہے۔ 14 سال سے جاری اس جنگ کے صرف دو فریق ہیں‘ امریکہ جو افغانستان پر حملہ آور ہوا ‘ طالبان جن پر حملہ کیا گیا۔ اب وہی طالبان افغانستان میں تنہا نمائندگی کے دعوے دار ہیں۔ اسلئے کہ نہ صرف ان کی حکومت کو بیرونی مداخلت کی زور زبردستی سے ختم کیا گیا بلکہ حکومت ختم ہونے کے بعد انہوں نے کامیاب مزاحمت کی۔ اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی ’’زچ‘‘ ہو کر یہاں سے نامراد نکلنے پر مجبور بلکہ محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان اور چین کی حیثیت علاقے میں امن کے قیام اور افغانستان میں جنگ ختم کرنے کیلئے سہولت کار‘ مددگار‘ معاون یا ثالث کی ہو سکتی ہے مگر وہ ہرگز فریق نہیں ہیں۔ طالبان نے اپنی قوم کی حرمت اور اسلاف کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے بہت بڑی طاقت بلکہ دنیا بھر کی حکومتوں اور ان کے اسلحہ خانوں کی تباہ کاریوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے۔بالکل اسی طرح کے حالات میں جب روس پتھر چاٹ لینے کے بعد افغانستان سے نکلنے کیلئے راستے کی تلاش میں تھا تو اس وقت پاکستان کی فوج کا مؤقف تھا کہ روس افغانستان سے جاتے ہوئے‘ افغانستان میں اپنی ٹھونسی گئی حکومت کو بھی ساتھ لے کر جائے تاکہ افغانستان میں مزاحمتی گروپ پر مشتمل ایک عبوری حکومت بنائی جا سکے۔ بصورت دیگر ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے مگر اس وقت کی سیاسی حکومت نے فوج کی گزارشات کو نظرانداز کر کے ’’جنیوا‘‘ معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ ’’جنیوا‘‘ معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں پاکستان‘ امریکہ اور روس شامل تھے‘ یعنی افغانستان کی حکومت اور افغانستان میں روس کی مزاحمت کرنے والے مجاہدین دونوں اس معاہدے کا حصہ ہی نہیں تھے۔ ستر لاکھ مہاجرین‘ بیس لاکھ شہداء‘ تباہ حال افغانستان اور پھر خانہ جنگی کی دہکتی ہوئی بھٹی۔اب امریکہ کو بھی نکلنے کیلئے راستے کی تلاش ہے مگر اس کی خواہش ہے کہ وہاں پر اس کی قائم حکومت کو غالب فریق تسلیم کر کے اس کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور طالبان ان کے نافذ کئے ہوئے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے‘ ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے اقتدار میں شامل ہو جائیں‘ اس طرح امریکہ جو اصل فریق اور تباہی کا ذمہ دار ہے اپنا دامن صاف بچا لینا چاہتا ہے۔چار عشروں سے پوری دنیا کی فوجی اور سیاسی طاقت کا مقابلہ او رمزاحمت کرنے والے افغان اتنے سادہ لوح بھی نہیں ہو سکتے کہ ’’وہ اس بانٹ میں شامل ہو جائیں جو پہلے ہی دو بندروں میں برابر بٹ چکی ہے‘‘۔ وہ غالب فریق ہیں ‘ ان کی سیاسی‘ فوجی‘ اخلاقی صورتحال ہر طرح محفوظ ہے‘ وہ بات چیت کی میز پر کیا دھرا برباد کر دیں گے‘ ایسا کبھی نہیں ہونے کا۔ اگر چین اور پاکستان علاقے میں دیرپا امن کے خواہش مند ہیں تو انہیں ڈپلومیسی کے تقاضوں کے ساتھ انصاف کے اصولوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔افغانستان کوتباہ کرنے‘ خون بہانے‘ بستیوں کو اجاڑنے کا معاوضہ طے کیا جائے‘ دنیا بھر میں دربدر مہاجرین کی واپسی کا لائحہ عمل اور اس کے اخراجات جارح قوتوں سے وصول کئے جائیں‘ اقوام متحدہ یا اسلامی ملکوں کے تعاون سے ایک غیرجانبدار حکومت قائم کر کے منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے‘ یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ امریکی یا نیٹو فوج افغانستان میں موجود رہے اور ان کی موجودگی میں مذاکرات کامیاب ہو سکیں۔ طالبان ہوں یا قبل ازیں افغان مجاہدین‘ ان کی پہلی شرط یہی ہے کہ ’’غیرملکی فوجیں چلی جائیں‘ ہم اپنے مسائل خود حل کر لیں گے۔‘‘
’’صرف پانی نکالنے سے کنواں پاک نہیں ہوتا۔‘‘
تازہ ترین