• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی ایک مسلمان ملک ہے جو یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں کا حصہ ہے، اس میں جمہوری طرز حکومت ہے اس کے مشرق میں روس اور ایران واقع ہے جن کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں اس کے جنوب میں عراق کی 235میل اور شام کی 490میل سرحد ملتی ہے اس کے مغرب میں یونان اور بلغاریہ کی سرحد ہے اور شمال میں بحر اسود واقع ہے۔ روس کی 367 میل طویل سرحد ترکی سے ملتی ہے یہ پٹی ترکی کی محافظ بھی ہے اس سرحدی پٹی کے باعث ہی روس دشمن قوتوں کی کوشش اور خواہش رہی ہے کہ ترکی ان کی سرپرستی میں آجائے جبکہ روس بھی صرف اس باعث ہی اپنی حفاظت کو مد نظر رکھے ہوئے ترکی سے ہر قیمت پر اپنے معاملات بہتر رکھنا چاہتا ہے ۔ ترکی در حقیقت یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے جدید ترکی کے پہلے صدر اور بانی مصطفی کمال تھے جنہوں نے ترکی کو اسلامی ریاست کی جگہ لبرل ترکی بنایا، ترکی کو سیاسی طور پر ایک بڑے عرصے بعد اسلامی مذہبی سوچ رکھنے والوں کی سیاسی جماعت کی قیادت نصیب ہوئی ہے جو اہل کلیسا کو قطعی پسند نہیں جب سے ترکی کے صدر ایردوان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور ترکی میں لبرل ازم کی جگہ اسلامی مذہبی روایات کو فروغ مل رہا ہے تب سے یورپی ممالک اور امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے طیب اردوان کو گھر بھیج دیا جائے اور ترکی کو پھر ایک بار لبرل بنا دیا جائے۔ 19 دسمبر 2016ء کو ترک دارالحکومت انقرہ میں ایک تقریب کے موقع پر روسی سفیر کو گولی مار کر قتل کردیا گیا یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا اس سے پہلے بڑی کارروائی فوجی بغاوت کے روپ میں ظاہر ہو چکی ہے ۔ امریکہ جو روس کا ازلی دشمن سمجھا جاتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ ترکی روس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق قائم رکھے روس جس کی سرحد ترکی سے ملتی ہے کے ترکی سے بہت ہی خوشگوار تعلقات ہیں جس کی نمایاں جھلک انقرہ میں روسی سفیر کے قتل کے موقع پر نظر آئی حالانکہ اس قتل کے منصوبہ سازوں کا خیال ہوگا کہ روس اپنے سفیر کے قتل کو معاف نہیں کرے گا اور اس کا بدلہ لینے کے لیے ترکی پر فوجی چڑھائی کردے گا اور یوں ترکی اور اس کے تمام پڑوسی ایک بڑی جنگ میں مبتلا ہوجائیں گے کیونکہ اس سے قبل ان ہی سازش کرنے والوں نے 24 نومبر 2015ء کو شامی سرحد کے قریب سرحدی خلاف ورزی پر ترک فضائیہ کے ہاتھوں روسی طیارہ مار گرانے سے اپنی سازشوں کا آغاز کیا اسی سازش کی دوسری کڑی 15 جولائی 2016ء کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت تھی اور اب یہ تیسری کڑی روسی سفیر کا قتل ہے۔ ترکی اور روس ایک دوسرے کے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں دونوں ممالک کے یورپ اور امریکہ سے اچھے تعلقات نہیں ہیں امریکہ سے روایتی کشیدگی کی وجہ سے ہی یوکرائن کے مسئلے پر گزشتہ دو برسوں میں روس کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں شام کے معاملے میں روس اور ترکی کے موقف جدا جدا ہیں لیکن دونوں ممالک قومی وسیع تر مفادات کے باعث ان اختلافات کو اپنے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دے رہے۔ ترکی نے اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے شام میں جنگ بندی کے حوالے سے روس اور ایران کو آمادہ کیا تھا یہ مذاکرات 27 دسمبر کو ماسکو میں ہونے والے تھے لیکن شاید اب روسی سفیر کے قتل کے بعد ممکن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ سابق جہادی رہنما ڈاکٹر عبداللہ عزم کے بیٹے حذیفہ عزم کے کہنے کے مطابق ترکی میں روسی سفیر کا قتل ایک خطرناک عالمی سازش کا حصہ ہے کیونکہ عالمی طاقتیں ترکی کو ہر صورت کمال اتاترک کے دور کا ترکی دیکھنا اور بنانا چاہتی ہیں۔ انویسٹی گیشن رپورٹس شائع کرنے والے ایک عرب جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عالمی قوتوں نے شام میں میدان جنگ برپا کر رکھا ہے اوراس میں روس اور ترکی کا کردار بہت اہم ہے ،ترکی میں روسی سفیر کو قتل کردیا گیا جبکہ روسی فضائیہ کے تعاون سے ترکی کے ہمسایہ شام میں بشار الاسد کی فوج کو حلب میں بڑی کامیابی ملی ہے اسی جریدے کے مطابق ایک اور حیران کن مماثلت روسی سفیر کے قاتل اور آسٹریا کے ولی عہد پرنس فردی ننڈ کو قتل کرنے والے طالب علم جاور یلوور نیب میں پائی جاتی ہے۔ 28 جون 1914ء کو ہنگری کے ولی عہد کو گولی مارے جانے کے خلاف آسٹریا نے سربیا کے خلاف اعلان جنگ کردیا جس نے جنگ عظیم کا روپ دھار لیا تھا شاید روسی سفیر کے قتل کے منصوبہ سازوں کا خیال کچھ ایسا ہی ہوگا یہی وجہ ہے کہ اس قتل کا تجزیہ کرنے والے اس خوف کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر روس نے کسی انتقامی کارروائی کی ابتدا کی تو ہوسکتا ہے کہ وہ تیسری عالمی جنگ کا سبب نہ بن جائے اور روسی سفیر کے قتل کی چنگاری سے عالمی جنگ نہ بھڑک اٹھے ۔کلیسا کا روز اول سے یہ شیوہ رہا ہے کہ اسلام کو جس طرح اور جیسے بھی ہوسکے ختم کردیا جائے اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو مسلمانوں کو ایک جہت نہ ہونے دیا جائے ان میں باہمی اختلافات کو ہوا دی جائے اور کسی اتحاد کو نہ بننے دیا جائے اسی سبب کلیسا کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے مسلم ممالک کو اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہے وہ اسلام دشمن قوتوں پر بے دریغ خرچ کرتا ہے اور خصوصاً ایسے مسلمانوں کو جو خود اسلام اور اس کی مذہبی روایات سے دور ہیں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر رہا ہے، یمن ، شام اور عراق میں ہونے والے فسادات اور قتل و غارت گری کی سرپرستی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ مسلمان آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں چونکہ ترکی نے اسلامی روایات کا پاس کرتے ہوئے شام میں جنگ بندی کی کوشش کی جبکہ روس اس کے لیے رضا مند نہیں تھا اس کے باوجود ترکی کے ایما پر وہ ایران اور شام سے مذاکرات کے لیے راضی ہوگیا ان مذاکرات کو نہ ہونے دینے کے لیے ترکی میں روسی سفیر کو قتل کرایا گیا ہے لیکن خلاف توقع روس نے بڑے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تحقیقاتی ٹیم کو انقرہ بھیج دیا ہے جو اس پورے معاملے کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ جلد پیش کرے گی، روسی حکمران سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے حلیف ترکی کو امریکا اور یورپی پسند نہیں کرتے اس لیے ممکن ہے سفیر کا قتل کسی عالمی سازش کا نتیجہ ہو جبکہ منصوبہ سازوں کا گمان ہوگا اس قتل سے وہ دہرا فائدہ اٹھائیں گے۔ روس اور ترکی کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور روس اور ترکی کو باہم دست و گریباں کر کے مسلم امہ کو بڑا نقصان پہنچا سکیں گے لیکن اللہ امت مسلمہ کا ہمیشہ سے نگہبان اور حامی رہا ہے ان شاء اللہ نہ اب اور نہ آئندہ ہی امت مسلمہ کو کوئی بڑا بھاری نقصان پہنچا سکیں گے، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

.
تازہ ترین