• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک مرتبہ پھر پنجاب میں اپنی برتری ثابت کر دی ہے ۔ پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں ہونے والے میئر ، چیئرمین ضلع کونسل اور چیئرمین میونسپل کمیٹی کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے ایک مرتبہ پھر اپنی برتری ثابت کر دی ۔ پنجاب بھر کے 35 اضلاع میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میئر ، ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ، سابق گورنر اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمودکے بیٹے مخدوم زادہ علی محمود رحیم یار خان سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سے شکست کھا گئے حالانکہ ضلع رحیم یار خان میں مخدوم احمد محمود کی پوزیشن مضبوط نظر آ رہی تھی مگر مسلم لیگ ن نے مؤثر حکمت عملی اور آخری مرحلے میں جوڑ توڑ کر کے یہ ضلع جیت لیا مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار اظہر خان لغاری رحیم یار خان کے چیئرمین ضلعی کونسل منتخب ہوئے۔ خفیہ رائے شماری میں مخدوم احمد محمود گروپ کے متعدد چیئرمینوں نے مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دیا۔اس کے علاوہ پنجاب کے کسی ضلع میں بھی پیپلز پارٹی کہیں نظر نہ آئی۔ پنجاب کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف بھی اپنے ہوم گرائونڈ میانوالی میں شکست کھا گئی حالانکہ ضلع میانوالی میں تحریک انصاف کے پاس عددی اکثریت تھی مگر آپس کے اختلافات کے باعث مسلم لیگ ن کے گل حمید روکھڑی آسانی سے چیئرمین ضلعی کونسل میانوالی منتخب ہو گئے۔ فیصل آباد میں انتہائی دلچسپ مقابلہ دیکھنے میں آیا جہاں مسلم لیگ ن کے شیر علی گروپ اور رانا ثناء اللہ گروپ کے درمیان مقابلہ تھا مگر رانا ثناء اللہ گروپ نے فیصل آبادمیں فتح حاصل کر کے اپنی برتری ثابت کر دی یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمینوں نے شیر علی گروپ اور ثناء اللہ گروپ کو ووٹ دیا جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے کھڑے ہونے والے امیدواروں نے اپنا ووٹ بھی اپنے آپ کو نہ دیا۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ پی ٹی آئی نے ان بلدیاتی نمائندوں کو پارٹی سے نکال دیا ہے جنہوں نے رانا ثنااللہ گروپ کو ووٹ دیا جبکہ شیر علی گروپ کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں نے اپنا ووٹ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو دیا۔ بہر حال تحریک انصاف کی پنجاب بھر میں بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں بھی کارکردگی مایوس کن رہی اس کی بڑی وجہ پنجاب کی قیادت میں شدید اختلافات اور انتظامی ڈھانچہ نہ ہونا بھی تھا جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی ان انتخابات پر خاص توجہ نہ دی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے برعکس ق لیگ نے دو اضلاع میں مسلم لیگ ن کا بھرپور مقابلہ کیا اورضلع اٹک میں مسلم لیگ ق نے فتح سمیٹی اور ان کی امیدوار بیگم ایمان وسیم نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے بھانجے احسن علی خان کو شکست دی جبکہ چوہدری برادران گجرات میں مسلم لیگ ن سے شکست کھا گئے۔ چوہدری خاندان کی بیگم سمیرا الہٰی کو مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری تنویر احمد نے شکست دے کر چوہدری خاندان کی بلدیاتی سیاست پر 30سالہ بالا دستی ختم کر دی۔ مجموعی طور پر پنجاب کے 35 اضلاع میں مسلم لیگ ن جبکہ ایک ضلع میں مسلم لیگ ق کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ضلع شیخوپورہ میں وفاقی وزیر رانا تنویر اور ایم این اے میاں جاوید لطیف کے درمیان مقابلہ تھا جس میں رانا تنویر کے بھتیجے رانا عتیق ضلع شیخوپورہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اسی طرح احسن اقبال کے صاحبزادے احمد اقبال ضلع نارووال وفاقی وزیر سارہ افضل تارڑ کے والد چوہدری افضل تارڑ حافظ آباد سے چیئرمین ضلعی کونسل منتخب ہوئے۔ ضلع بھکر میں نوانی خاندان نے شاہانی اور خنان خیل خاندان کے ساتھ مل کر مسلم لیگ ن کے امیدوار فاروق اعظم کو شکست دے کر اپنے خاندان کی بلدیاتی سیاست پر گرفت قائم کر لی۔ ان بلدیاتی انتخابات کے نتیجے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں انتہائی مضبوط اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ مسلم لیگ ن کے اگرچہ مختلف دھڑوں کے درمیان مختلف اضلاع میں آپس میں ہی مقابلہ تھا لیکن مسلم لیگی قیادت نے انتہائی خوبصورتی سے مختلف اضلاع میں پائے جانے والے اختلافات کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ جن اضلاع میں آزاد چیئرمین ضلعی کونسل منتخب ہوئے ان سب کا تعلق بھی مسلم لیگ ن سے ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہوگا کہ مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت نے نہ تو پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں کوئی ہوم ورک کیا تھا اور نہ ہی اس پر توجہ دی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما ممبر قومی اسمبلی حمزہ شہباز گزشتہ 3 ماہ سے اس بلدیاتی الیکشن کے ہوم ورک میںمصروف تھے اور پنجاب بھر سے ملنے والی فتح میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ حمزہ شہباز نے اپنی ٹیم کے ہمراہ تمام اضلاع کی مسلم لیگی قیادت وہاں کے بلدیاتی نمائندوں سے متعدد میٹنگیں کیں اور ایک حتمی فہرست مرتب کی جس کو بعد میں وزیراعظم نواز شریف کو پیش کیا گیا اور اطلاعات یہی ہیں کہ کم و بیش اسی فہرست کی روشنی میں بلدیاتی نمائندوں کے انتخابات کے آخری مرحلے کے امیدواروں کا چنائو کیا گیا۔ 2018ء کے عام انتخابات جس پر تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں مرکوز ہیں اور جو جماعت پنجاب میں اکثریت حاصل کرتی ہے کم و بیش وفاق میں حکومت بھی وہی جماعت بناتی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے بعد 2018ء کے الیکشن میں ،مسلم لیگ ن گلی محلوںتک اپنا تنظیمی ڈھانچہ مکمل کر لیا ہے جو ان کو پنجاب میں الیکشن جتوانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت پنجاب ان بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے گلی محلوں کے نہ صرف مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے بلکہ ان کے ذریعے صوبے بھر میںترقیاتی کام کروانے کا منصوبہ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ الیکشن 2018ء میں کم و بیش ایک سال اورچند ماہ کا ہی عرصہ رہ گیا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابی سرگرمیاں یا تو شروع کر چکی ہیں یا شروع کرنے کی پلاننگ کر رہی ہیں۔ حکمران جماعت کے مضبوط قلعے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کتنی دراڑیں ڈال سکتی ہیںیہ تو 2018ء کا آنے والا الیکشن ہی بتائے گا ۔ موجودہ صورتحال کے پیش ِنظر پنجاب میں اگر یہ دونوں سیاسی جماعتیں مل کر بھی الیکشن لڑیں تو ان کا مسلم لیگ ن کو ہرانا خاصا مشکل نظر آ رہا ہے۔

.
تازہ ترین