• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی جانوں کا ضیاع مسلمانوں کا ہو یا کسی بھی دوسرے مذہب سے وابستہ افراد کا درحقیقت انسانیت کا ہی خون ہوتا ہے۔ اس درندگی پر صرف اس وقت آنسو بہانہ درست نہیں ہوتا جب لہو کسی اپنے کا بہے۔ ایسا کرتے وقت ہم تعصب کی بنیاد پر غلط اور درست کی تمیز کھو دیتے ہیں۔ انسانیت سے تہی دامنی ہمیں شام کے حالات دیکھ کر محسوس ہو رہی ہے۔ عرب میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ عراق پر 2003ء کے حملے سے شروع ہوا اور یہ عفریت وہاں انسانوں کو نگلتا ہی چلا جا رہا ہے۔2010-11ء سے اب تک شام میں زبردست بربادی ہوئی ہے ۔ بشارالاسدکو ہٹانےکی خواہش نے شام کی سالمیت کو تہہ بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ شام میں مئوثر گروہوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جن میں شامی حکومت اور اس کے حامی جبکہ حکومت کے مخالفین لبرلز ، مذہبی انتہا پسند اور فرقہ واریت پر یقین رکھنے والے عناصر شامل ہیں۔ بعض علاقائی طاقتیں اپنے طور پر برسر پیکار ہیں جبکہ امریکہ اور روس کی صورت میں عالمی طاقتیں بھی اپنی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان تینوں سطحوں میں شامل گروہوں کے درمیان کوئی حقیقی مفاہمت ممکن ہے۔ اب تک تو بند گلی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر ہم جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بشارالاسدکے حامی تو ان کے گرد جمع ہیں مگر ان کے مخالفین میں انتہا پسندعناصر بھی بتدریج شامل تو ہو گئے ہیں مگر ان کی ترجیحات اور مفادات مشترک نہیں ہیں۔ لہٰذا بشار الاسد کے مخالف دھڑے آپس میں بھی ایک دوسرے سے بر سرپیکار رہتے ہیں۔ علاقائی طاقتوں میں مصر ، عراق اور شام اہم فوجی طاقتیں تھیں۔ مصر اپنے داخلی حالات کے سبب جبکہ عراق اور شام خانہ جنگی کی وجہ سے اپنی طاقت کھو بیٹھے ہیں۔ شام کے قضیے میں تیسرا گروہ بین الاقوامی طاقتوں یعنی امریکہ اور روس کا ہے۔ بلکہ امریکہ تو حالات کو اس حد تک لیجانے میں کلیدی کردار بھی رکھتا ہے۔ امریکہ اور روس کے کردار کو صرف علاقائی تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہو گا۔ امریکہ کے حوالے سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے مشرق وسطیٰ سے ہٹ کر ایشیا کے دیگر ممالک پر نسبتاً زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ بھارت اس میں سرفہرست ہے۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کی اپنی اتحادی عرب ریاستوں کا بنیادی طور پر سلامتی کا ذمہ دار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان بدلتے حالات میں امریکہ موجودہ عرب ریاستوں کی تقسیم کو قائم رکھنے میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے۔ یا وہ مزید تقسیم کا حامی ہےیا حالات کو جوں کا توں رکھنے میں اس کے مفادات موجود ہیں۔ لیکن ایک معاملہ طے شدہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کرنے کے باوجود امریکہ کوئی ایسا طریقہ کار وضع نہیں کر سکا کہ جس کے ذریعے وہ اپنے علاقائی اتحادیوں ، ترکی اور غیر ریاستی عناصر کو اپنے فیصلے کو تسلیم کرنے پر مجبور کر سکے۔ عرب ریاستوں اور ترکی کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ جبکہ جن گروہوں کو امریکہ نے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر تشکیل دیا تھا۔ ان کی تشکیل میں ان کے نظریات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب وہ کسی ایسے حل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیے ہی نہیں جا سکتے۔ کہ جن میں ان کے نظریات کو ہی صرف اہمیت حاصل نہ ہو۔ جبکہ روس کے اتحادی ایران کی یہ کیفیت ہے کہ ایک اندازے کے مطابق وہ کھربوں روپے شام کے معاملات میں جھونک رہا ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر بشارالاسد ایران کے لئے مناسب ترین شخصیت ہے۔ ایران کو صرف بشارالاسد کی تبدیلی پر اس صورت میں راضی کیا جا سکتا ہے کہ ان کے متبادل کے طور پر ایسا فرد ہو جو ایران کے مفادات کا مکمل طور پر خیال رکھ سکے۔ اور شام کے منظر نامے پر ایسی متبادل شخصیت موجود نہیں ہے۔ پھر روس کے حوالے سے یہ علم ہونا بہت اہم ہے کہ سوویت یونین کے بعد سے اب تک مشرق وسطیٰ کبھی بھی روس کی خارجہ حکمت عملی میں بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ دسمبر میں ہی روس نے Russia's New Foreign Policy Concept پیش کیا ہے کہ جس میں دوبارہ امریکہ ، یورپ اور ایشیا پیسفک کو روسی خارجہ حکمت عملی کی بنیادیں قرار دیا گیا ہے۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ روس مشرق وسطیٰ میں اپنے وسائل کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ بشارالاسد کی حکومت کی بقا اس کا مشرق وسطیٰ میں بنیادی ہدف ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ روس کی جدید تاریخ میں پہلی بار 2015میں روسی سرحدوں سے باہر فوجی اقدامات اٹھا رہا ہے۔ مگر وہ اس سے آگے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ان تمام عوامل کو اگر زیر نظر رکھا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ حلب کی فوجی فتح کے باوجود فریقین نہ صرف اپنی اپنی پوزیشن پر موجود ہیں بلکہ مختلف وجوہات کی بناپر ان میں کسی باہمی سمجھوتے کی امید بھی قائم نہیں رکھی جا سکتی۔ امریکہ اور روس اگر کوئی باہمی سمجھوتہ کر بھی لیںتو یہ طاقت نہیں رکھتے کہ تنازعے میں متحرک تمام گروہوں کو اسے تسلیم کرنے پر مجبور بھی کر سکیں۔ شام کے عوام خانہ جنگی کی وجہ سے بدامنی ، شہری سہولتوں کی تباہی ، انتہاپسندی اور مہاجرین کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور افسوس ہوتا ہے کہ ابھی قطع نظر کسی علاقے کی فوجی فتح و شکست کے وہ ان مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے۔ کیونکہ مفاہمت کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں ہے۔

.
تازہ ترین