• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دسمبر 2016 بھی رخصت ہوا چاہتا ہے۔ہم نے کیا کھویا کیا پایا اس کا ذکر بھی ہوگا لیکن پہلے اپنے عظیم ہمسایہ چین کا ذکر کرنا ازحد ضروری ہےکیونکہ اس نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار اد اکیا ہے۔مشرق کے اقتصادی شیر چین اور مغرب کے حربی و اقتصادی بادشاہ امریکہ کے مابین قیادت اور وسائل کے استعمال کی سرد جنگ جاری وساری ہے۔ چین کی اندرونی صورتحال کچھ یوں ہے کہ بڑی تعداد میں بیرونی سرمایہ کار اس کا رخ کررہے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ وہ گلوبلائزیشن اور اقتصادی نمو کی تیز لہر کے دبائو کے زیر اثر دنیا کی تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی معیشت سے اپنا حصہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ دنیا کے ایک نئے اور بڑے ثقافتی ماحول کا تجربہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔بہرحال سرمایہ کاری کرنا اور اس مقصد کیلئے اظہار دلچسپی یقیناً ایک سنجیدہ کام ہے۔چینی حکومت اپنے ملک میں تیل کی بحفاظت فراہمی کیلئے سپلائی لائن کی تکمیل کے ایجنڈے پر زور شور سےعمل پیرا ہے۔ اس سلسلے میں پاک چین اقتصادی راہداری پر عملی کام جاری ہے۔ ایک خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ پچھلے دو برس سے مخالفت کرنے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آخر کار پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت و افادیت کو مان لیا ہے اور اس کی بھرپور حمایت کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔چینی حکام انہیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ یہ منصوبہ پورے پاکستان کا ہے نہ اور سب کو اس کا فائدہ ملے گا۔دیر آید درست آید۔ اب تحریک انصاف کو کے پی کی طرف بھی توجہ دینا چاہئے تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں کار کردگی کی بنیاد پر عوام کی پذیرائی حاصل کر سکیں۔ اس اعلان سے اس امر کی بھی توثیق ہوتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ہمیشہ کی طرح ملکی مفاد کیلئے ایک بڑے منصوبے کا آغاز کیا ہے اور وہ اسے کامیابی سے مکمل کرکےتاریخ رقم کرے گی۔امید ہے کہ جب اورنج لائن ٹرین منصوبہ بھی مکمل ہوجائیگا تو وہ اس کی افادیت سے بھی انکار نہ کرپائینگے۔ میٹرو بس کی افادیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس کیساتھ ساتھ اسپتالوں،تعلیمی اداروں کی صورتحال کی بہتری کیلئے بھی صوبائی حکومت پوری تندہی سے کام کررہی ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کو ایک بڑا خطرہ بہر حال ہے اور وہ ہے امریکہ اور چین۔ امریکہ اس ضمن میں اپنے پتے انتہائی چالاکی سے شو کررہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی تائیوان کے رہنما اور صدرٹسائی انگوین سے ٹیلیفونک گفتگو پر چین نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔جب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےخطیبانہ انداز گفتگو اپناتے ہوئے مبینہ طور پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تو مجھے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی یاد آگئی جنھوں نے اپنے دور حکومت میں دلائی لامہ سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ تبت کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کا اعلان کرکے چین کو کھلا چیلنج کیا تھا جس کے بعد چین نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور یورپ چین سمٹ کو منسوخ کردیا تھا۔
2009 ءمیں چینی وزیراعظم وین جیا بائو نے ڈیووس ورلڈ اکنامک فورم سے نشاندہی کرتے ہوئے فرانس کواس سے علیحدہ کردیا تھا۔ نکولس سرکوزی کی انتشار پسندانہ پالیسی کی مخالفت کرتےہوئے سابق فرانسیسی وزیراعظم ریفرین نے چین کو اپنے قریب لانے کی پالیسی اپنائی۔اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ سرکوزی کی ذہنی کیفیت غیر متوقع اور توقع کے درمیان کشمکش کی روشن مثال تھی۔آج نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی لگ بھگ اسی قسم کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ریفرین کا یہ بھی کہنا تھاکہ نہ یورپی یونین اور نہ ہی امریکہ نے چین کی صلاحیت کو سمجھا ہے بلکہ وہ مہم جوئی میں مبتلا ہیں۔فرانس کے وزیر خارجہ کا بھی یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کا رویہ چین کے بارے میں غیر واضح اور ناقابل فہم ہے۔چین سے اختلافات ہونا قابل فہم ہے لیکن ایک پارٹنر کے بارے میں اس طرح کے بیانات دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ہمیں بھنور میں پھنسنے سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ معاملات قابو سے باہر نہ ہو پائیں۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل سمیت یورپ کے اکثر لیڈروں کو امید ہے کہ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد جنون کی کیفیت سے نکل کر اہل سیاست کا چلن سیکھ جائیں گے اور حساس سرخ لائن کو پار کرنے سے پرہیز کریں گے۔ امریکہ کی ایما پر بھارت اس منصوبے کی کھلم کھلامخالفت کرنے سے باز نہیں آرہا۔چین اس سلسلے میں خطے کے تمام ممالک کے اندیشے اور خدشات دور کرنے کی کوشش کررہا ہے اور چوکس رہنے کا بھرپور عملی مظاہرہ کررہا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل کے لئے چین پاکستان کیساتھ ملکر روس اور افغانستان کو تقریباً منا چکا ہے اور اب بھارت کو بھی قائل کرنے کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔اگر خطے کے تمام ممالک اس راہداری سے فائدہ اٹھانے کے یک نکاتی ایجنڈے پر آجاتے ہیں تو یہ خطہ خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو جائیگا جس سے بڑا حصہ پاکستان کو ملے گا۔توانائی کے منصوبے مکمل ہونے پر ملک سےلوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائیگا اور صحت اور تعلیم کے منصوبے مکمل ہو نے کے بعدملک کی قسمت بدل جائیگی۔

.
تازہ ترین