• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ حکمرانوں نے پاکستان کو لبرل اور جمہوری ملک قرار دیا تھا۔ خواتین اور اقلیتوں کے حوالے سے چند مثبت اقدامات اور دہشتگردی کے خلاف سخت کارروائیوں نے تنگ نظر اور انتہا پسندانہ رجحان رکھنے والے طبقات کو بھی حکومت کے خلاف متحرک کر دیا تھا۔ دہشتگردی کیخلاف قائدانہ کردار اگرچہ فوج کے پاس تھا لیکن فوج کو ایک سویلین سپورٹ یقینا حاصل تھی۔ سو ایک امید بندھنا شروع ہوئی کہ پاکستان بالآخر تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑنے کو تیار ہو رہا ہے جو ترقی اور بہتری کی طرف سفر پر گامزن ہونے کی پہلی شرط ہے۔لیکن پانامہ لیکس کے بعد سے امیدیں ایک طرح سے پھر دم توڑنے لگیں۔ نواز شریف کی ذاتی ساکھ جو بڑی مہارت سے اور بڑے حکومتی وسائل خرچ کے بحال کی گئی تھی، واپس نوے کی دہائی والی اپنی اصل جگہ پرآ گئی، پروگریسو ایجنڈا، جس پر عمل کرنا پاکستان میں ایک جراتمندانہ اقدام ہی تصور کیا جاتا ہے، پر عملدرآمد کیلئے مطلوبہ قوت اور طاقت حکومت کھو چکی۔ سو پاکستان کو لبرل بنانے کا خواب تو ادھورا رہ ہی گیا، کمزوری کے احساس نے حکمرانوں کو آمرانہ اقدامات پر بھی مجبور کر دیا جس سے ناتواں جمہوریت بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ جمہوریت کے ساتھ انکی وابستگی کبھی بھی بہت زیادہ نہیں رہی کیونکہ انہوں نے اپنا سیاسی کیرئیر بنانے کیلئے مختلف اوقات میں آمریت کو مختلف شکلوں میں نہ صرف قبول کیا، بلکہ اسکو تقویت بھی بخشی۔ لیکن ایک خاص سیاسی شناخت حاصل کر لینے کے بعد کیرئیر کے لئے جمہوریت کا راگ آمریت سے زیادہ فائدہ مند ہو گیا تو وہ جمہوریت پسند ہونے کا تاثر دینے لگے۔ تاثر کا لفظ اسلئے استعمال کیا کہ دراصل جمہوریت پسند ہونا قطعی مختلف چیز ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی حکمت عملی یہ رہی کہ تاثر جمہوریت پسندی کا رہے لیکن عملی طور پر جمہوریت کی دوا کا استعمال صرف اسقدر کیا جائے جو طاقت اور اختیارات کا زیادہ سے زیادہ ارتکاز انکی ذات تک محدود رکھے۔ جوں ہی جمہوری تقاضے کابینہ، اراکین پارلیمان، بلدیاتی اداروں، اور دیگر ریاستی ستونوں اور اداروں کے ساتھ اقتدار، اختیارات اور فنڈز شیئر کرنے کا مطالبہ کریں، تو جمہوریت سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ نتیجتا، دیگر ریاستی ستونوں اور اداروں کے ساتھ وہ لاکھ کوشش کریں، انکے تعلقات خراب رہتے ہیں۔ پنجاب یعنی آدھے پاکستان میں تقریبا نو سال اور مرکز میں تقریبا چار سال سے حکومت میں ہیں لیکن بلدیاتی ادارے قائم نہیں ہونے دیئے، اراکین پارلیمان کا قانون سازی میں کوئی حصہ ہے نہ قومی سیاسی بیانیہ میں انکا کوئی کردار، اور تو اور انہوں نے اپنی ہی بنائی ہوئی کابینہ کو بھی ربڑ اسٹیمپ بنا دیا حتی کہ سپریم کورٹ کویہ فیصلہ دینا پڑا کہ وزیر اعظم اکیلا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، آئینی اسکیم میں وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔ نواز شریف صاحب جمہوریت کے ساتھ یہ سب کچھ جمہوریت پسندی کے پیچھے چھپ کر کرتے رہے اور "میڈیا مینجمنٹ" کی وجہ سے یہ سب کچھ عوام کی نظروں سے اوجھل رہا۔
لیکن پانامہ لیکس کی وجہ سے اقتدار پر گرفت جو قدرے کمزور ہوئی تو نشانے پر ایک دفعہ پھر جمہوریت اور جمہوری ادارے آ گئے۔ مکمل طور پر تابع افسر شاہی کے ذریعے اقتدار پر گرفت مضبوط بنانے کی پالیسی سے جمہوریت اور جمہوری ادارے انکے ہاتھوں خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ دو بڑے اقدامات جو جمہوری اقدار کو مستقبل کی روشنی میں لے جانے کی بجائے ماضی کی تاریکیوں کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہیں، انکی اس نئی پالیسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پہلا اقدام ریگولیٹری اداروں کو افسر شاہی کے ذریعے حکومتی کنٹرول میں لانے کا نوٹیفیکیشن ، جو پہلے ہی جاری ہو چکا ہے۔ اب اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت نے ریگولیٹری اداروٍں کو مکمل طور پر اپنا تابع بنانے کیلئے قانونی ترامیم بھی تیار کر لی ہیں۔ ریگولیٹری اداروں کا تصورنیو لبرل سرمایہ دارانہ معاشی پالیسی کے تصور سے جُڑا ہوا ہے، جو سرد جنگ کے بعد سے دنیا میں رائج ہے۔ اس پالیسی کے تحت یہ نعرہ دیا گیا کہ کاروبار کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے اسلئے حکومتوں کو کاروباری ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ کر کاروبار کو آزاد منڈی کے اصولوں پر چلنے کیلئے چھوڑ دینا چاہئے۔ اور حکومتی نگرانی کی بجائے کاروبار کو آزاد منڈی کے اصولوں کے تحت ریگولیٹ کرنے والے ریگولیٹری اداروں کی نگرانی میں دے دینا چاہئے، جن پر حکومت کا کنٹرول کم سے کم ہو۔ نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیاں مسائل کا حل ہیں یا مسائل کی وجہ، یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہی آج کی معاشی حقیقت ہیں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت میں پاکستان میں ریگولیٹری اداروں کے قیام کے عمل کا آغاز ہوا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی شرائط کے تحت پچیس سال میں ریگولیٹری اداروں کا ایک پورا نیٹ ورک قائم ہو گیا۔ اب نواز شریف ان ریگولیٹری اداروں کو افسر شاہی کے تابع کر کے اپنے براہ راست کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں کہ وزارتوں کو کنٹرول کرنے میں وزرا کا کردار پہلے ہی برائے نام ہے۔ انکا یہ اقدام عالمی معاشی ادارے جو ہماری معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں، کی نظر میں ہے اور وہ انکے اس اقدام کو روکنے کیلئے کافی ہونگے۔
لیکن حکومت نے انگریز کی غلامی کے نشان یعنی ڈی سی کے عہدے کو بحال کر کے جمہوریت خصوصا بلدیاتی اداروں تک اختیارات کی منتقلی کے جمہوری تقاضے پر جو ضرب لگائی ہے اسکے خلاف مزاحمت بھی ہمیں خود ہی کرنی ہو گی۔ ایک ضلع کے چار پانچ ایم این ایز، دس پندرہ ایم پی ایز، اور پانچ چھ منتخب ضلعی اور تحصیل چیئرمینوں کو اٹھارہ گریڈ کے ایک نوعمراورلاابالی بیوروکریٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے سے زیادہ جمہوریت کا نقصان اور کیا ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ڈی سی کے عہدے کو ماضی میں دھاندلی کیلئے مرکزی کردار کی حیثیت رہی ہے اوراگر یہ اقدام واپس نہیں ہوتا تو اگلے انتخابات میں پچھلے انتخابات سے بھی زیادہ دھاندلی کو یقینی سمجھا جائےگا جس سے غیر جمہوری قوتوں کو سویلین حکومتوں کو پردے کے پیچھے سے کنٹرول کرنے کا پھر سے بہانہ مل جائے گا اور جمہوریت مزید کمزور ہو گی۔ اسلئے حکومت کیلئے بہتر ہو گا کہ اپنے تنگ نظر اور محدود مفادات کیلئے جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچائیں۔ اگروہ جمہوریت کی اس کشتی کو ڈبوئیں گے تو خود بھی نہیں بچ پائیں گے۔

.
تازہ ترین