• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی سال سے یہ میرا معمول تھا کہ ہفتہ کے روز میں تقریباً 10بجےگھر سے نکلتا اور اپنے مہربان سید انور قدوانی کو علامہ اقبال ٹائون سے لیکر قدوائی صاحب کے مربی حضرت سرفراز شاہ کے حضور میں پیش ہو جاتے ۔یہ ایک نجی سی مجلس ہوتی سید سرفراز شاہ بہت ہی مروت والے انسان ہیں وہ انسانوں کو سرفراز کرنا جانتے ہیں ان کی مجلس میں ہر موضوع پر سیرحاصل گفتگو ہوتی ۔وہ ہر ایک بات کو توجہ سے سنتے اور پھر حاضرین مجلس کو بھی شریک گفتگو کرلیتے۔ میری حضرت سرفراز شاہ سے آشنائی میرے محسن سید انور قدوانی نے کئی سال پہلے کروائی تھی ۔
اب میں کیا لکھوں اور کیسے لکھوں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سید انور قدوائی ہم سب کا ساتھ چھوڑ کر اپنی دنیا میں گم ہو چکے ہیں۔23دسمبر کو میری ان سے آخری گفتگو ہوئی جمعہ پڑھ کر واپس آیا تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی دوسری طرف سے سیدانور قدوائی مخاطب تھے ’’کہاں تھے آپ ‘‘ میں نے عرض کی کہ بس جمعہ پڑھ کر ابھی ہی واپس آیا ہوں جواب آیا کہ ’’کل کا کیا پروگرام ہے ‘‘ میں نے حسب روایت کہا مرشد میں آپ کے پیچھے ہوں، اچھا کل صبح 10بجے کے قریب مجھے لے لینا شاہ صاحب سے ملنا لازم ہے۔میں نے ہنس کر کہا حکم کی تعمیل ہو گی اور فون بند ہو گیا۔فوراً ہی دوبارہ فون بجا اس بار بھی سید صاحب فون پر تھے اور بولے آج کل پریس کلب کے انتخابات کا رولا ہے آپ وقت پر سید سرفراز شاہ کے حضور پیش ہو جانا۔پھر واپسی پر دفتر آنا اور فون بند ہو گیا میں اور قدوائی صاحب گزشتہ ہفتے جب سرفراز شاہ کی مجلس میں شمولیت کے لئے گئے تو معلوم ہوا کہ آج مجلس نہ ہو سکے گی سرفراز شاہ صاحب کسی اور جگہ مصروف ہیں۔اسی دن جناب ڈاکٹر حسین پراچہ سے ملاقات کرنی تھی دوپہر کو جب حسین پراچہ سے ملنے کے لئے ان کے کمرہ میں جا رہے تھے تو آواز پڑی بھاہ طفیل کی طرف سے دعوت شیراز ہے میں نے قدوائی صاحب سے کہا آپ تناول مآحضر میں شرکت کریں۔انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم جناب سہیل وڑائچ کے دفتر میں ساتھیوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئے۔بڑا پرمسرت ماحول تھا سہیل صاحب کی ٹیم یکجا اور یک سوئی سے کھانے میں شریک تھی کھانے کے بعد محترم حسین پراچہ کے دفتر میں چائے کا اہتمام ہوا۔گپ شپ لگی، پھر میں نے ان کو ان کے گھر اتارا اور طے پایا کہ پیر کے دن قدیر سہگل کے ہاں محفل سجے گی مگر مصروفیت کے سبب دوبارہ ملاقات بھی نہ ہو سکی ۔
پھر کیا لکھوں جمعہ کی شام کو کسی نے فون کیا کہ فیس بک دیکھی ہے میں نے کہا نہیں وہ بولے اچھی خبر نہیں میں ایک لمحہ کو پریشان سا ہوا کیوں کیا ہے۔’’امان قدوائی کے بابا چل بسے ‘‘ میرے جسم پر کپکپی کی لہر دوڑ گئی میں چند لمحے تو بالکل مائوف سا ہوگیا ابھی اس کیفیت سے دوچار تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور بجتی چلی گئی خیر جیسے تیسے فون کو سنا تو دوسری طرف امان قدوائی بڑے حوصلے سے مخاطب تھے ’’آپ کے دوست ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ‘‘ میں نے سب کچھ سنا اورصرف اتنا ہی کہہ سکا میں ابھی آ رہا ہوں مگر مجھ میں نہ حوصلہ تھا نہ ہمت کہ میں اپنے آپ کو جانے کےلئے تیار ہی کر سکوں۔اور میں کسی بھی جگہ نہ جاسکا۔
اگلے روز صبح کو حسب حکم تیار ہو کر سرفراز شاہ کی خدمت میں حاضر ہوا عجیب کیفیت سے دوچار تھا شاہ صاحب کے ہاں دوست احباب موجود تھے سب ہی مجھ سے تعزیت کر رہے تھے عرفان قیصر شیخ جو قدوائی صاحب کے بہت قریب تھے ان کی رفاقتوں کی بات کرنے لگے۔میرے پیارے دوست بابر حسین بھروانہ ان کی علمیت اور حکمت کا بتانے لگے ۔سید سرفراز شاہ سے ان کے تعلق کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ وہ ہر معاملہ پر سرفراز شاہ سے مشاورت کرتے اور عمل کرتے۔
گزشتہ سال کا دسمبر بھی بڑا ستمگر تھا جب میری والدہ ہم سب سے پردہ فرماگئیں میں ان دنوں زندگی سے بہت ہی بیزار سا رہنے لگا اور سکون کی کوئی صورت نظر نہ آتی،میں نے اپنی کیفیت کا اظہار قدوائی صاحب سے کیا ان کو میرے غم کی شدت کا اندازہ تھا مجھ سے پوچھنے لگے تم ان کے لئے اب کیا کر سکتے ہو ۔اب بھی تم ان کی باتوں پر عمل کرو اور یاد کرو کہ وہ تم سے کیا چاہتی تھیں۔ان کی اس بات سے مجھے بڑا حوصلہ ہوا غم تو اپنی جگہ برقرار ہے مگر افسردگی کی شدت میں کمی ہوئی ان دنوں میں دن میں دو تین بار قبرستان ضرور جاتا، پھر ایک دن مجھ سے پوچھا اماں یاد آتی ہیں میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہنے لگے ماں کے ساتھ ساتھ اللہ کو یاد کرو، اب ہفتہ میں ایک دفعہ قبرستان جاتا تم تو روز اپنی والدہ کو پریشان کرتے ہو، غم کا پہاڑ اپنی جگہ پر رہا مگر اس پر چڑھنا اور اترنا آسان ہو گیا۔
میں نے ایک دن ان کو گوجرخان کے پروفیسر احمد رفیق اختر کا بتایا کہ وہ لاہور آئے ہوئے ہیں پھر ان کی کتابوں کا ذکر ہوا جن کی تعداد کم و بیش 30سے زیادہ ہے اور میرے پیارے دوست افضال احمد نے اپنے ادارے سے شائع کی ہیں پھر وہ بتانے لگے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر ان کے جوانی کے دوست ہیں ۔ماڈل ٹائون میں ان کی ملاقات ہوئی پروفیسر صاحب کے ہاں ایک ہجوم تھا مگر جب قدوائی صاحب سے ملے تو سب کو چھوڑ کر دونوں اپنی دنیا میں گم ہو گئے ۔ملاقات کے بعد واپسی پر بتانے لگے ہمارا یہ دوست علم و عرفان کا دریا ہے اور ہم خوش نصیب ہیں ان ہی دنوں میں نے اورقدوائی صاحب نے 2013ء کے انتخابات پر ایک کتاب مرتب کی تھی۔ کتاب کا نام تھا ’’انتخابات، قصر جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘ دوست احباب نے ہماری اس کاوش کو کافی پسند کیا۔پھر عمران خان کے تاریخی دھرنے کے بعد جو کمیشن بنا اس کی تحقیقات میں اس کتاب کو بھی شامل کیا گیا پھر ایک دن ہمارے جنگ کے منفرد کالم نگار حسن نثار کے ہاں ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔تو یادوں کا ایک دلبستان کھل گیا۔وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ تعلقات کی باتوں پر آف دا ریکارڈ سیرحاصل تبصرہ بھی ہوا۔مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ دوست احباب اس طرح بھی بدل جاتے ہیں میں نے ان سے پوچھا اب تعلقات کی کیا نوعیت ہے وہ مسکرائے، بھئی ہم ان کے خیراندیش ہیں اور ان کو ان دیکھے اندیشوں سے خطرہ ہے اب اعتبار نہیں بیوپار کا زمانہ ہے پھر پیر صاحب پگاڑا کا تذکرہ شروع ہو گیا۔سید انور قدوائی پاکستان کی سیاست اور صحافت کی چلتی پھرتی تاریخ تھے انہوں نے پاکستان کے قومی پرچم پر ایک کتاب مکمل کرکے پاکستان بک فائونڈیشن کے انعام الحق جاوید کو دی تھی اور خیال تھا کہ 25دسمبر تک وہ کتاب شائع ہو جائے گی۔ پاکستان کا پرچم ان کے والد محترم کاڈیزائن کردہ ہے اور ان کی کتاب ’’قومی پرچم کی تاریخ‘‘ خود تاریخ کا حصہ بن گئی ہے ۔
ان کی عہدحاضر کے بابوں سے بڑی یاداللہ تھی ان تمام سے قدوائی صاحب کے ساتھ ہی ملاقات رہتی تھی میں ان سے کہتا کہ ان بابوں کی توجہ خواص اور اشرافیہ پر کیوں ہے۔وہ مسکراتے اور کہتے اصل میں خرابی بھی ان ہی میں ہے اب سیدقدوائی ہمارے ساتھ نہیں ان کی باتوں اور یادوں کا ایک ہجوم ہے میں سب کو دیکھ رہا ہوں سن رہا ہوں، ہم سب سید انور قدوائی کی دوستی اور مروت کے قرض دار ہیں اب ان کا قرض کیسے اور کس کو ادا کریں ۔

.
تازہ ترین