• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خودساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد پاکستان لوٹے ۔ وہ گزشتہ سال کراچی میں پی پی پی پر ہونے والے کریک ڈائون کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ تاہم ایک مرتبہ پھر زرداری صاحب کی آمد کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ نے اُن کا استقبال اس طرح کیا کہ اُن کے کاروباری معاون، انور مجید کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے ۔
مسٹر زرداری نےاعلان کیا کہ وہ اور اُن کے صاحبزادے ، بلاول سندھ کے حلقوں سے الیکشن جیت کر اسمبلی میں جائیں گے ۔اس طرح باپ بیٹا مل کر ہم خیال پارٹیوں کے تعاون سے وزیر ِاعظم نواز شریف کے سامنے اپوزیشن کا مضبوط الائنس بنائیں گے ۔توکیا یہ صورت ِحال مسٹر شریف کیلئے خطرناک ہوگی ؟عمران خان نے مسٹر زرداری کی سیاسی پیش قدمی کا خیر مقدم تو کیا ہے لیکن وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حقیقی اپوزیشن لیڈر کے اپنے کردار سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ کیا یہ صورت ِحال مسٹر زرداری اور مسٹر شریف، دونوں کیلئے خطرناک ہے ؟مسٹر زرداری کیلئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان میں قیام اور 2018 ء کے عام انتخابات کی تیاری کیلئے پارلیمنٹ کی چھتری استعمال کریں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اُنہیں ہدف بنانے کا اشارہ دیتے ہوئے یہ گمان کررہی ہے کہ وہ ایک بار پھر ملک سے فرار ہوجائیں گے تو اسے ایک مرتبہ پھر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ زرداری صاحب کے اس مرتبہ ملک میں قیام کی دووجوہ ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ ماضی کی پالیسیوں کے تسلسل کے اعلان کے باوجود موجودہ آرمی چیف اپنے پیش رو کے برعکس مسٹر زرداری کا دہشت گردی کے ساتھ تعلق جوڑنے، جیسا کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں دیکھنے میں آیا، کی کوشش نہیں کریں گے ۔ایسی کوئی بھی کوشش پی پی پی کو مشتعل کرتے ہوئے اسے پارلیمانی سیاست سے نکال کر عمران خان کی احتجاجی سیاست کے ہمراہ کردے گی ۔ اس سے موجودہ نظام ہل کر رہ جائے گا جس کا وزیر ِاعظم نواز شریف کو نقصان ہوگا۔ چنانچہ وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان جو بھی سوچتے رہیں، مسٹر شریف نے اپنی سوچ سے نئے آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو آگاہ کردیا ہے ۔ اس وقت یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اپنے عہدوں پر حال ہی میں تعینات ہونیوالے اعلیٰ افسران وزیر ِاعظم کی ہدایت کو نظر انداز کرینگے ۔ اسکے علاوہ دونوں افسران اس بات سے بھی بخوبی آشنا ہیں کہ دہشت گردی کو سیاست سے مربوط کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ زرداری صاحب کو چھوڑیں، اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر کے خلاف بھی کامیاب قانونی کارروائی نہیں کرسکی ، نیز آپریشن کا سلسلہ دیگر صوبوں میں نہ بڑھایا جاسکا، جس کی وجہ سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے کچھ دھڑوں نے اسے صوبائیت کے پس ِ منظر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ چنانچہ یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ مسٹر زرداری کے اعلانات کو دیکھتے ہوئے مسٹر شریف نے فوری طور پر آئی ایس آئی کے نئے چیف اور چوہدری نثار سے ملاقاتیں کیں۔ یہ سمجھنے کیلئے راکٹ سائنس درکار نہیں کہ اس ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی ہوگی۔ گمان ہے کہ اُنھوںنے کہا ہوگا کہ پی پی پی کو ذرا سانس لینے دیں۔ اس کے بعد اُنھوںنے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرتے ہوئے اُنہیں اپنے اور زرداری صاحب کے درمیان موافقت پید اکرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا۔ مولانا صاحب کو بیچ میں شریک کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ پی پی پی نے چار مطالبات سامنے رکھے ہیں: قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام ، کل وقتی وزیر ِ خارجہ کی تعیناتی، پاک چین معاشی راہداری پر زرداری صاحب کی میزبانی میں کل جماعتی کانفرنس میں پی پی پی کی منظور کردہ قرارداد کا نفاذ، اور سینیٹ سے منظورکردہ پاناما انکوائری بل پر عمل درآمد۔ ان میں پہلے دو کو تسلیم کرنے میں مسٹر شریف کو کوئی تامل نہ ہوگا۔ اسی طرح وہ تیسرے پر بھی سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ چار میں سے تین مطالبات تسلیم کرنا ایک اچھی حسابی اوسط ہے ، جو مسٹر زرداری کو عمران خان سے دور رکھنے کیلئے کافی ہوگی۔ فی الحال تو عمران خان نے ہی نواز شریف مخالف شو کیے تھے ۔ پی پی پی کے خورشید شاہ نرم خو اور اعتزاز احسن تند خوجیالوں کا کردار ادا کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔اس مرتبہ مسٹر زرداری اور بلاول بھٹو اسی ذمہ داری کو بالترتیب خود سنبھالیں گے اور قیاس ہے کہ ان کی کارکردگی بہتر ہوگی ۔ زرداری صاحب پر ڈیل سازی کا ہنر ختم ، تو ان کے صاحبزادے اپنی کشش اور ذہانت سے میڈیا کی حمایت حاصل کرتے ہوئے عوامی جذبات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرینگے ۔ جس دوران مسٹر شریف اور مسٹر زرداری پارلیمنٹ میں خوشگوار ماحول میں پنجہ آزمائی کررہے ہوں گے ، اصل توجہ کا مرکز قریب ہی واقع سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی ہوگی ۔ عمران خان نئے چیف جسٹس صاحب کو دبائو میں لانے کی کوشش میں تھے ۔ اُن کی یہ کوشش اس حد تو کامیاب قراردی جاسکتی ہے کہ جناب جسٹس ثاقب نثار سے منسوب ایک بیان میڈیا میں شائع ہو ا کہ وہ کسی خوف یا کسی کی حمایت کو خاطر میں لائے بغیر انصاف کریں گےکیونکہ کئی لوگوں نے اس بیان سے یہ تاثر لیا ہے کہ یہ بیان دراصل عمران خان کے اُن الزامات کا رد ِعمل ہے جس میں اُنھوںنے جسٹس ثاقب نثار صاحب کو مسٹر شریف کا ’’قریبی ‘‘ قرار دیااور پاناما گیٹ کی تحقیقات کے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی۔
پی ایم ایل (ن) کیساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ اقتدار میں ہو تو یہ منہ زور گھوڑے پر سوا ر دکھائی دیتی ہے ۔ جب یہ مسائل میں گھر جاتی ہے تو یہ عاجزی اور انکساری کی نادر مثالیں قائم کرتی ہے ۔ نئے آرمی چیف کی سیاسی معاملات میں گریز کی پالیسی حکمران حماعت کو اتنی آزادی ضرور دیتی ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کیساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل کرسکے ۔ لیکن اگر اس نے اس موقع سے غلط فائدہ اٹھایا تو پھر اس کا وہی حال ہوگا۔۔۔’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ۔‘‘



.
تازہ ترین