• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم تخلیقی میدان میں بڑا کام کیوں نہیں کرپاتے؟ یہ سوال2016ءمیں بھی ہمیں پریشان کرتا رہا۔ بڑے کام سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایسا کام جیسا قرۃ العین حیدر نے اردو ادب میں کیا یا انگریزی ادب میں فیلڈنگ، جوزف کانریڈ، ولیم فالکنر اور ارنسٹ ہمنگوے نے کیا جیسا روسی ادب میں ٹالسٹائی نے کیا یا پھرفلم کے میدان میں ہچکاک، چارلی چیپلن، اسٹیون اسپیل برگ اور اورسن ویلیس جیسے لوگوں نے کیا۔ اس کا ایک جواب نیویارک ٹائمز کے ایک اداریے میں دیا گیا جب فلم بنانے والے بڑے لوگوں کو فلم فلاسفر کا نام دیا گیا تو گویا سمجھ میں یہ آیا کہ تخلیقی میدان میں بڑا کام بھی ہوسکتا ہے جب ادب میں یا فلم میں لوگ فلاسفرز کی طرح بڑے سوالات اٹھاتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ٹالسٹائی یا قرۃ العین حیدر نے اٹھائے، بالکل ایسے ہی جیسے اورسن ویلیس نے اپنی فلم سٹیزن کین Citizen Kaneمیں اٹھائے۔2016ءکی بہترین فلموں کی بات کرتے ہوئے بہت سے نقاد لکھتے ہیں کہ بڑے اسٹوڈیوز خاص طور پر امریکی اسٹوڈیوز اور فلم بنانے والے اداروں نے کمرشل بنیادوں پر کامیاب ہونیوالی فلموں کیلئے غیر مرئی طاقتوں والے ہیروز کی فلمیں بنا کر پیسہ تو بہت کمایا مگر فلم میکنگ کا بیڑا غرق کردیا۔اسی لئے ان کی بنائی فلمیں اگرچہ کروڑوں ڈالرز کا بزنس کرتی ہیں مگر انہیں کسی بھی طور بہترین فلموں میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سبق ہمارے پاکستان میں فلمیں بنانے والے لوگوں کو پڑھنا چاہئے جنہوں نے 2016میں کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اچھی فلم کیلئے بہت بڑی ٹیکنالوجی ا ور سرمائے یا بڑے تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عقل کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے صرف 24برس کی عمر میں اورسن ویلیس(Orson Welles)نے سٹیزن کین بنائی جس کو1941میں بننے کے باوجود آج تک کی دنیا کی بہترین فلم مانا جاتا ہے۔
یہ فلم کیا ہے ؟ اس نے ایسا سحر کیسے طاری کیا کہ1941کے بعد آج تک مورخین اور نقاد اس کو بہترین فلم گردانتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کیلئے آئیے اس فلم کی کہانی اور میکنگ کے حوالے سے کچھ بات کرتے ہیں۔اورسن ویلیس نے جب یہ فلم بنانے کا ارادہ کیا تو ان کی عمر صرف 24برس تھی۔ انہوں نے فلم بنانے کا تجربہ کہیں سے حاصل نہیں کیا تھا۔ ان کا واحد تجربہ یہ تھا کہ انہوں نے فلمStage Coachکوئی 40مرتبہ دیکھی تھی۔ اس کے باوجود ایک فلم میکنگ کے ادارے نے ان کی صلاحیتوں پر اعتبار کیا اور انہیں فلم کے ا سکرپٹ لکھنے ،اس کی ڈائرکیشن دینے اور پھر فلم کے مرکزی کردار کیلئے منتخب کرلیا۔یہ فلم ایک نیوز پیپر ٹائی کون( اخبار کے بہت امیر مالک) کی کہانی ہے جو اپنے عظیم الشان محل میں مرتے وقت اپنے آخری الفاظ"Rosebud"ادا کرتا ہے اور مرجاتا ہے۔ وہ اس وقت تنہا زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی زندگی کے نشیب و فرازاسے اس وقت کے اخبارات کے رپورٹرز کیلئے ایک معمہ بنادیتے ہیں اور پھر Rosebudکیا ہے؟ کون ہے؟ یہ جاننے کیلئے وہ سب بے تاب ہوجاتے ہیں۔ اسی تلاش میں ایک رپورٹرJerry Thompsonبھی ہے جو کین کے قریب رہے ، لوگوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی تلاش میں اسے پتا چلتا ہے کہ سٹیزن کین یعنی فوسٹرکین نے زندگی کا آغاز انتہائی غربت میں کیا لیکن پھر کچھ محنت اور کچھ قسمت کی یاوری کی بدولت وہ امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ اس نے امریکہ کے ایک صدر کی بھانجی سے شادی کی اور پھر خود بھی گورنر بننے کے خواب دیکھنے لگا۔
کین کا انجام بھی ایسے ہی ہوا کہ اس کی بیوی مسٹریس ا ور باقی اسے چھوڑ گئے اور آخری عمر میں اتنی دولت کے باوجود تنہائی کا شکار ہوا۔سٹیزن کین کو ایسی شہرت ملی کہ آج تک دنیا کے بڑے بڑے نقاد ا س کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ اس فلم کے اسکرپٹ کو جیسا کہ میں نے پہلے لکھا اورسن ویلیس نے ہرمن جے کے ساتھ مل کر لکھا۔
اس کی کہانی حیرت انگیز طور پر اس وقت کے ایک بڑے اخبار کے مالک ولیم ہرسٹ کی زندگی سے ملتی تھی جس نے اس فلم کے بننے میں بے انتہا رکاوٹیں ڈالیں اور پھر جب اس میں ناکام ہوا تو اس نے اس کی ریلیز کے وقت اس کو روکنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا اور فلم لگنے کے ساتھ ہی تقریباً ناکام ہوگئی۔ یہ تو بھلا ہو مشہور فرانسیسی نقاد آندرے بیزاں کا جس نے اس فلم کی بے ا نتہا تعریف کی اور یوں فلم کو1956میں دوبارہ ریلیز کیا گیا اور یہ کامیاب رہی۔اس فلم کو9آسکر ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیا ۔ گو یہ صرف 2ایوارڈ جیت پائی لیکن25برس کی عمر میں ایک ڈائریکٹر کا اپنی پہلی ہی فلم پر یہ ایوارڈ جیتنا خود
تاریخ کا حصہ بن گیا۔ کامیابی فلم کو صرف کہانی کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ اس کی فلم سازی بھی تاریخ ساز بن گئی۔ ڈیپ فوکس کی تکنیک پر شوٹ کی گئی یہ فلم آج بھی طلبا اور ناقدین کیلئے ایک لیجنڈ کا درجہ رکھتی ہے۔
2017کے آغاز میں اس فلم کے بارے میں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج جو ہماری انڈسٹری کے نابغہ روزگار مگر بے کار فلم ساز اس بات کا رونا روتے ہیں کہ اگر حکومت ان کا ساتھ دے تو نہ جانے وہ کیا کارنامہ انجام دے ڈالیں۔ ان کیلئے سبق یہ ہے کہ چوڑیاں، وحشی گجر اور ملکو رانی ایسی فلمیں بنانے سے آپ بڑے فنکار نہیں بن سکتے نہ ہی آپ آج کل کی کراچی فلم انڈسٹری سے بنائی گئی بے کار فلموں ایسا برُاکام کرسکتے ہیں، فلم بنانے کیلئے آپ کوہچکاک اور اورسن ویلیس جیسا بڑا کام کرنا پڑے گا۔



.
تازہ ترین