• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برہمن کی مدح یا راجہ کا قصیدہ...یہ بعض لکھاریوں کا بندھا بندھایا فرض منصبی ہے، ایسے درباریوں کی کوئی تحریر سکون یا بے قراری پیدا کرنے کے کام نہیں آتی البتہ ایسی تحریروں کا کالا جادو جس تن میں غرور ہو اس سر میں چڑھ کر بولتی ہیں۔دوسری طرف بغض فروزاں، نقاد بیاج... یہ روایت گرچہ سیاسی، جمہوری تہذیب کے دامن پر بدنما کلنک ہے، لیکن مملکت خداداد پاکستان کے ہونٹوں پر ایسےہی ابن الوقتوں کا بوسہ رقص کررہا ہے۔ ایک اور قسم بھی ہے لیکن خواص تو خواص عوام بھی ان کی بے نمک تحریروں سے بیزار ہیں، وجہ ظاہر و باہر ازبس یہی ہے کہ انحطاط پذیر پاکستانی معاشرےمیں مرچ مسالے سے خالی کوئی پروڈکٹ قبولیت عام کی سند حاصل کر ہی نہیں سکتی۔ ایسی پھیکی تحریر وں کو زیادہ سے زیادہ بس یوں دیکھا جاتا ہے کہ جیسے ایک روح کی خود کشی کا نظارہ ہو۔ حالانکہ اس میں پنہاں درد ذات کا نہیں ان عوام کا ہوتا ہے جو اس سے عافل ہیں ۔باالفاظ دیگر یہ وطن عزیز کےعوام کا المیہ ہے کہ وہ کسی کہانی میں اپنی کراہ کو بھی نہیں سن پاتے، شایداس لئے کہ ہم اپنے اپنے حواس بیچ چکے ہیں۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگرچہ عوام کش لوٹ مار کی اس سیاسی دنیا میں امیدوں و ارمانوں کا ہوش ربا طلسم گردش دوراں کے باوصف قصہ ماضی بنا زائل ہوچکا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ رومان بھی زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے، پھر ہم اس نیند کے قائل ہی نہیں جس میں سپنے نہیں دکھائی دیتے ، سو تمام تر تحفظات کے باوجود راقم یہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی ہی وفاق کی علامت اور لبرل و سیکولر سیاست کی پہچان ہے۔ اگرچہ 1975میں اسٹیبلشمنٹ کے عزائم کی تکمیل کی خاطر جنرل نصیر اللہ بابر کے منصوبے کے تحت ذوالفقار علی بھٹو نے گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی و دیگر نام نہاد مجاہدین کو پشاور میں لا بسا کر جہادی کلچر کا احیا کیا ۔ ضیا الحق کی سرپرستی کی بدولت جس نے بعد ازاں پورے پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ محترمہ بے نظیربھٹوکو بھی یہی جنرل بابر شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے ،یوں 1989میں طالبان کی تخلیق پیپلز پارٹی ہی کا کارنامہ قرار پائی۔ ہم اس جیسی متعدد دیگر فاش اغلاط کو مگر اس خاطر بھی تاریخ کا جبر مان سکتے ہیں کہ 2007میں پھر یہی پیپلز پارٹی تھی، یہی بے نظیر بھٹو تھیں، جو خوفناک دھمکیوں کے باوجود پاکستان آئیں، اور نہ صرف آئیں بلکہ ایک قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے باوجود بزدلوں کی طرح بھاگ کھڑی نہ ہوئیں، بلکہ حقیقی معنوں میں ’مردانہ وار‘ اصطلاح کوجلا بخشتے ہوئے امر ہوگئیں۔ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی اولین حکومت جسے 1990تک صرف دو ڈھائی سال چلنے دیاگیا،جمہوری و عوامی آدرشوں کی جانب ایک قدم تھا۔ بعد کی حکومتوں میںالبتہ بے حساب لوٹ مار کی آمیزش در آئی۔ یوںاب تک لوٹ مار اور قربانیاں مشترکہ پیپلز پارٹی کے عوامی چہرے کے خدوخال ہیں۔وفاق و صوبوں میں پیپلز پارٹی کی پچھلی زرداری صاحب کی حکومت کے دوران راقم کے کالموں میں یہ نکات اصرار بہ تکرار سرِ بام تھے کہ جناب حسین حقانی جیسے محب وطن کو غدار ثابت کرانا، سلیمان تاثیر کا قتل، یوسف رضا گیلانی کی معزولی و صاحبزادے کا اغوا اور خود ایوان صدر میں بھی صدر مملکت آصف زرداری کا سرہانے بندوق رکھنا، وہ علامتیں ہیں جو صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کس قدرآزمائشوں سے دوچار ہے۔ لیکن کیا یہ بھی حالات کا جبر ہے کہ پیپلز پارٹی کے بڑے و چھوٹے کرپشن کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ اپنے نام کرتے جائیں! ہم نےماضی میں گزارش کی تھی کہ عوامی دولت پر ڈاکے پر اس لئے سکوت ہے کہ ایک تو اس سے اسٹرٹیجک مفادات متاثر نہیں ہوتے، دوسری بات یہ کہ اس سے سیاستدان چونکہ خائن ثابت ہوتے ہیں، یوں کوشش بھی یہی ہے کہ ایسی بلائوں سے صرف نظر کیا جائے جس سے سیاستدان بدنام اور بوقت ضرورت اسلام علیکم میرے ہم وطنو! کے لئے دیدہ ودل فرشِ راہ ہوسکیں۔ یوں ہم آج دیکھتے ہیں کہ سیاستدانوں کی تمام تر قربانیوں کے مد مقابل کرپشن ہی اژدھا بنی کھڑی ہے۔ چنانچہ معروضی کشاکش میں فنی تخلیق کی گردن میں پھندا سا پڑ گیا ہے اور اس کا دائرہ بہت ہی محدود ہوگیا ہے پھر بھی وہ جماعتیں غنیمت ہیں جن کا کوئی نہ کوئی نظریاتی بھرم موجود ہے۔ بات پھر کہاں سے کہاں تک جا پہنچی، وہ جو حضرت جون ایلیا نے کہا ہے۔
ضبط کرکے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا
تو جناب آصف زرداری اور پیارے بلاول کی خدمت میں عرض یہ کرنا چاہتے تھے کہ براہ کرم کم از کم صحت و تعلیم کے شعبوں ہی کا احوال معلوم کرلیا جائے۔ تعلیمی اداروں کے وڈیروں کی اوطاقوں اور گوداموں میں تبدیل ہونے سے لے کر لاکھوں گھوسٹ اساتذہ کی بعوضِ رشوت بھرتیوں سمیت ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جو پیپلز پارٹی کے دعوئوںکے جھوٹا ہونے کا نقارہ ہیں۔ حالیہ واقعہ مگر یہ ہے کہ لیاری میڈیکل کالج میں باصلاحیت غریب طلبہ کے کوٹے پر بھی وڈیروں اور پارٹی کی بااثر شخصیات نے قبضہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں جنگ کے سینئر رپورٹر سید محمد عسکری کی 29دسمبر کو روزنامہ جنگ میں  شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ دیکھی جاسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے طلبہ جنہوں نے مہنگے کالجوں سے انٹر کیا انہوں نے پسماندہ علاقوں گڈاپ، کیماڑی، لیاری ملیر کے ڈومیسائل بنواکر داخلہ لے لیا ، اسطرح پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر اور وہیں کے اسکولوں اور کالجوں میں زیرتعلیم طلبہ کی ایک بڑی تعداد داخلہ لینے سے محروم رہ گئی۔ این ٹی ایس کے صوبائی سربراہ محمد عمران نے جنگ کو بتایا کہ ہمیں حیرت ہے کہ ڈومیسائل گڈاپ لیاری ملیر یا کیماڑی کے علاقوں کا ہوتا ہے جبکہ تعلیم کانونٹ اسکول یا مہنگے اسکولوں کی ہوتی ہے۔ لیاری میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر انجم رحمنٰ نے جنگ کو بتایاکہ کالج کے قیام کا مقصد پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم دینا ہے اسی بنیادپر کوٹے رکھے گئے ہیں تاہم کئی امیدوار جن کاپسماندہ علاقوں سے تعلق نہیں ہوتا ڈومیسائل بنوا کرداخلہ لے لیتے ہیں ہم اس میں کیا کریں، باہر کے کچھ لوگ پیسے دیتے ہیں اور ڈومیسائل بنا لیتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہےکہ کیا یہ ممکن ہے کہ جناب زرداری صاحب اور بلاول صاحب یہ تحقیق کرلیں کہ ایسے غریب کش اقدامات کے پسِ پشت سندھ اسمبلی کی بااثر شخصیات سمیت وہ کونسی کالی بھیڑیں ہیں جو شہدا کی پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملانے کے درپے ہیں ....




.
تازہ ترین