• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2016 آج ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔2017 کئی پہلوئوں سے نئے سیاسی امکانات کا سال ہو گا۔ حکومت کی کوشش ہو گی کہ یہ سال امن اور سکون سے گزرے اور وہ اپنے ترقیاتی کاموں بالخصو ص توانائی کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچا سکے۔ دوسری طرف اپوزیشن سر توڑ کو شش کرے گی کہ سیاسی ماحول کو گرم رکھا جائے اور حکومت دفاعی پوزیشن پر رہے ۔ اگر 2018 کے وسط تک لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ مستقلا حل نہیں ہوتا تو حکومت یقیناََ مشکلات کا شکار ہو گی اور اگلے انتخا بات میں اسے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کے اہم رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ 2017 سیاسی افراتفری کا سال ہو گا۔ یقینا یہ افراتفری حکومتی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈالے گی۔ جسکا فائدہ بجا طور پر اپوزیشن جماعتوں کو پہنچے گا۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا حکومت بہتر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کیساتھ اپنے اقتدار کا یہ آخری سال نہ صرف مکمل کر سکے گی بلکہ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو بھی آگے بڑھا سکے گی یا نہیں۔ دوسری طرف اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی جماعتیں یکسوئی کیساتھ کسی ایجنڈے پر متفق ہو کر کوئی مشترکہ تحریک چلا پائیں گی یا نہیں۔ اپوزیشن پر نگاہ ڈالی جائے تو عوامی مقبولیت اور اراکین اسمبلی کی تعداد کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نمایاں ہیں ۔ اس وقت صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو انتخابی مہم چلاتے وقت یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اپنے اپنے صوبوں میں انکی کارکردگی صوبہ پنجاب اور مرکزی حکومت سے بہتر رہی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنے کے لئے ان دونوں جماعتوں میں کسی طرح کی انتخابی مفا ہمت کا اہتمام ہو جائے۔ صورتحال یہ ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی میں واپس آچکے ہیں۔ انہوں نے انتخابات کے بعد تقریبا ڈیڑھ برس کا عرصہ دھاندلی کے خلاف احتجاج میں ضائع کر دیا۔تاہم 2013 کے انتخابات کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے سند جواز دے دی۔ دھاندلی کے بعد خان صاحب کوئی نہ کوئی موضوع تلاش کرتے رہے تاکہ احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ اپریل 2016 ءسے لیکر اب تک وہ پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنی سیاسی گہما گہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اب جبکہ 2017 ءشروع ہو رہا ہے اور یہ انتخابی مہم کا سال ہو گا شاید عمران خان کو عوام کے پاس جانے کے لئے احتجاج، دھرنوں اور ہنگامہ آرائی سے ہٹ کر کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانا پڑے گی جو ووٹرز کے لئے کشش کا باعث ہو۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی بھی کافی متحرک ہو چکی ہے۔ آصف علی زرداری تقریبا ڈیڑھ سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد واپس آچکے ہیں۔ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ خود اور انکے صاحبزادے بلاول زرداری قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر ایوان میں جا رہے ہیں۔ اس سے قبل بلاول بھٹو نے بڑے دبنگ لہجے میں چار مطالبات کا اعلان کیا تھا۔ اور حکومت کو وارننگ دی تھی کہ 27 دسمبر تک یہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی زبردست احتجاج کرے گی۔ تاہم حکومت کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگی۔ تاہم پیپلز پارٹی بھی مطالبات پورے نہ ہونے پر کسی طرح کے احتجاج کا پروگرام نہ دے سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بہر حال کسی طرح کی غیر جمہوری تبدیلی نہیں چاہتی۔ زرداری صاحب اور بلاول کا ایوان میں آنا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اسمبلی کو اگلے ڈیڑھ برس تک برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی اور پی پی پی میں کوئی اشتراک عمل ہو سکے گا ۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا۔اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پانامہ کو بنیاد بنا کر کرپشن کے خلاف مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسی طرح کی کسی مہم کی قیادت کرتے ہوئے آصف زرداری یا پی پی پی کو ساتھ ملا لینا مہم کے مقاصد اور خود تحریک انصاف کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آج ایک طرف نوازشریف کا ووٹ بنک ہے دوسری طرف نواز شریف کے مخالفین کا ،جو کئی جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جو بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ بنک کی ہوا کرتی تھی۔ 2013ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی بری طرح شکست کھا گئی اور خاص طور پر پنجاب میں اس کا تمام ووٹ بنک تحریک انصاف کی طرف چلا گیا۔معاملہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اس ووٹ بنک کو بدستور اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی اپنا کھویا ہوا ووٹ بنک پی ٹی آئی سے واپس لینا چاہتی ہے۔ گویا ووٹ بنک ایک ہے اور دعویدار دو ہیں۔اصل جنگ ان دعویداروں کی آپس میں ہونی ہے۔ چونکہ یہ مسلم لیگ (ن)مخالف ووٹ بنک ہے، اس لئے اس بنک کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں ہی حکومت اور نواز شریف کیخلاف بھر پور قوت آزمائی کریں گی۔ خود کو انکی سب سے بڑی مخالف پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کریں گی ۔یہ ہیں وہ دو نکات جو پی ٹی آئی اور پی پی پی کے مابین کسی ممکنہ اتحاد کی نفی کرتے ہیں۔ اگر یہ جماعتیں 2013 کی طرح اپنے اپنے طور پر میدان میں اترتی ہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ پیپلز پارٹی اپنے نئے جوش و خروش کی وجہ سے 2013 کی نسبت کچھ زیادہ ووٹ حاصل کر لے۔ یہ زیادہ ووٹ تحریک انصاف کے کھاتے سے نکلیں گے۔ فی الوقت تو یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) 2018 کے انتخابات میں ایک بار پھر کامرانی کی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ سفر اسکے لئے بھی خاصا کٹھن ہے۔ اسے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے بعد قصبوں اور دیہات کا رخ کرنا پڑے گا۔ جہاں تعلیم ،صحت، پینے کے پانی اور گلیوں سڑکوں وغیرہ کے مسائل عوام کیلئے پریشانی کا باعث ہیں ۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ اسے نہ صرف اپنے اتحادیوں بلکہ دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کیساتھ بھی تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ مرکز اورصوبائی اسمبلی کے اراکین کی قیادت تک رسائی نہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) ہر بڑے شہر میں دھڑے بندیوں کا شکار ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات نے ان دھڑے بندیوں کو اور زیادہ پھیلا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اگر ان کمزوریوں پر توجہ نہیں دیتی تو یقینا وہ بھی مطلونہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔




.
تازہ ترین