• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2016ءبالآخراب ماضی کا حصہ بن گیا اور سال 2017ءکا سورج معاشی، سیاسی اور سماجی معاملات کے پس منظر میں کئی امیدوں اور توقعات کے ساتھ طلوعہوگیا ہے۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے سال کے آخری دنوں میں دھند کے حالات دراصل ملکی حالات کی بہتری پر پڑی ہوئی دھند کی عکاسی کررہے ہوتے ہیں کہ جیسے سارا سال قومی وسائل زیر بحث تو آتے رہے مگر عملاًان پر دھند ہی پڑی رہی۔ اس وقت معاشی میدان میں کئی شعبوں میں بہتری کے حکومتی دعوئوں کے باوجود عوام کی اکثریت کا مطمئن نہ ہونا اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ شاید یہ مسائل بھی سیاسی حالات اور گورننس کی خرابی کی وجہ سے دھند کا شکار رہے۔ سال رواں میں سیاسی طور پر حالات روزانہ کی بنیاد پر بدلتے رہے بلکہ ایک دو مواقع تو ایسے بھی آئے کہ جیسے میاں نواز شریف کی حکومت اب گئی کہ اب گئی۔ کئی دفعہ تو ایسے لگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنے یا نہ بنے کم از کم قومی حکومت ضرور بننے والی ہے۔اس میں ایک دو مواقع کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جب عمران خان کے پہلے دھرنے نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد پاناما ا یشو نے بھی حکومت کو خاصا پریشان کئے رکھا لیکن وزیر اعظم نواز شریف جو 1980ءسے 1985ءتک ایک معصوم شخصیت کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے تھے، وہ سیاسی میدان میں آہستہ آہستہ بالغ ہوتے گئے پھر1990ءکی دہائی میں وہ مزید سیاسی میدان میں میچور ہوئے اور بڑی مہارت سے اپنا کام چلاتے رہے ۔ کبھی وہ جمہوریت کے استحکام کے لئے اور کبھی صدر مشرف سے جان چھڑانے کے لئے پیپلز پارٹی سے طرح طرح کے الحاق اور معاہدے کرتے رہے جبکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے سن سن کر اور سنا کر خوش ہوتی رہی لیکن سیاسی بصیرت کی بجائے’’ ضروریات مال‘‘ کی سیاست کا حصہ بننے کے بعد وہ پنجاب میں عملاً ختم ہو کر رہ گئی۔
اب مختصراً یہ کہ2016میں وزیر اعظم نواز شریف جو عملی طور پر سیاسی میدان میں عمر اور تجربہ کی بنیاد پر سب سے سینئر پوزیشن پر آچکے ہیں انہوں نے اپنے 25۔30سال کے مشکل ترین سال2016میں اپنے تمام کارڈز بڑے ہی اچھے انداز میں کھیل کر اپنے سیاسی مخالفین کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ خاص کر پاناما کیس میں اخلاقی طور پر کیس کے کمزور ہونے کے باوجود ان کی سیاسی حکمت عملی کامیاب رہی اور اب ایسے لگتا ہے کہ پاناما پاناما ہی بنا رہے گا ۔ اس طرح سابق صدر آصف علی زرداری کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن واپسی سے ایک روز پہلےیہ کہہ کر’’ہمیں آصف علی زرداری کے واپس آنے پر خوشی ہوگی وہ آئیں اور اپنی پارٹی کو سنبھالیں‘‘ سابق صدر زرداری کے دل میں کئی رنجشوں کو بھلانے کی ’’گوگلی‘‘ پھینکی ہے حالانکہ یہ وہی زرداری صاحب ہیں جن کے بارے میں ان کے عرصہ صدارت میں کہا جاتا تھا کہ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک زرداری پیپلز پارٹی پر بھاری ثابت ہوئے اور یہ پارٹی حالیہ انتخابات میں صرف سندھ تک محدود رہ گئی۔ اب ایسے لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک غیر فطری اتحاد کی طرف جاسکتے ہیں۔ اس لئے کہ اب بھی شاید زرداری صاحب کئی غیر اعلانیہ این آر او کے تحت آرہے ہیں جس کا کریڈٹ حکومت اور خاص کر میاں نواز شریف کو جاتا ہے جن کو ملکی اور بین الاقوامی تمام اداروں کو’’ہینڈل‘‘ کرنے کا فن آتا ہے۔ اس کا مظاہرہ قوم پچھلے کافی عرصہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس لحاظ سے جیسے بین الاقوامی جرائد ہر سال کئی ایک اعلیٰ شخصیت کو سال کی بہترین شخصیت قرار دیتے ہیں اس طرح میاں نواز شریف سیاسی طور پر اپنے تمام کارڈز(پتے) کھیلنے کی وجہ سے سال کے بہترین سیاستدان قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ گوکہ ان کے دور میں ابھی تو عوام کی اکثریت کسی بھی قسم کے بڑے ریلیف سے محروم ہے البتہ امیروں کی تعداد اور غریبوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ خدا کرے 2017کم از کم قوم کے لئے اچھی اورامیدافزا ثابت ہو اور قوم کو جھوٹ کی بجائے سچ کی بنیاد پر معاشی شعبے اور سماجی حالات کی بہتری کی نوید ملے۔



.
تازہ ترین