• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیادہ ترپاکستانی ڈراموں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے تین مسائل ہیں’محبت‘ شادی اورطلاق‘۔جو ڈرامے اِن اجزائے ترکیبی سے خالی ہوتے ہیں ،انہیں ’ٹاک شو‘ کہا جاتاہے۔پہلے محبت میں ڈرامے ہوتے تھے، اب ڈراموں میں محبت ہوتی ہے۔کیا اچھا دور تھا جب ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار لڑکا لڑکی ہر ملاقات میں بہترین لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ نئے کپڑے پہن کر بال بنائے جاتے تھے۔ لڑکے خاص طور پر الٹی شیو کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ نرم و نازک نظر آسکیں۔ لیکن غضب خدا کا، اب تو لڑکے بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ قینچی چپل پہن کر بھی لڑکی کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ لڑکیوں کا مزاج بھی ایسا بدلا ہے کہ اب انہیں ہر وہ لڑکا پسند آجاتا ہے جس نے گہری نیلی پینٹ پر طوطا رنگ کی شرٹ اور پائوں میں گہرے سرخ رنگ کے جوتے پہنے ہوں۔پہلے محبت کے معاملات انتہائی خفیہ رکھتے جاتے تھے کیونکہ زمانہ بہت ظالم تھا۔میرے ایک دوست کو 1990 میں ایک لڑکی سے محبت ہوئی اور اتنی شدید ہوئی کہ روز اسے ایک خط لکھا کرتا تھا۔ ڈیڑھ سال بعد پتا چلا کہ لڑکی نے ڈاکیے سے شادی کرلی ہے۔اب ایسا نہیں ہوتا،محبتیں ہوتی ہیں اور سارے زمانے کو شریک ِ راز کرلیا جاتاہے۔ لڑکے اپنے دوستوں کی منتیں کرتے نظر آتے ہیںکہ’جنید! پلیز تم ہی شکیلہ کو سمجھائو وہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہے‘۔
پرانے عاشقوں کو اپنے مطلب کے 25 اشعار زبانی یاد ہوتے تھے اور مجال ہے جو کوئی مصرع بھی بے وزن ہوجاتا‘ لیکن اب عاشق خود ہی شاعر بن گئے ہیں۔یہ ہر مسئلے کا حل ذاتی شعر’بنا‘ کر نکال لیتے ہیں اورشعر کچھ اس قسم کا ہوتاہے’تم نے جو مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے اے دوست…ایک دفعہ آکر پوچھ تو لیا ہوتا کہ کوئی پرابلم تو نہیں‘۔ایسے عاشقوں کی کثیر تعداد پانچ چھ ناکام عشق کرنے کے بعدڈیڑھ دو سو غزلیں بغل میں دبائے کوئی ایسا بااعتماد پبلشر تلاش کرتی نظر آتی ہے جو اپنی کمائی کی خاطر ان کی کتاب کی پانچ سو کی بجائے پانچ ہزار کاپیاں نہ چھاپ لے!!!
پہلے عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ہوا کرتی تھی، عشق میں ناکامی پر عاشق ایک کیسٹ میں اپنی پسند کے دس درد بھرے گیت بھرواتا تھا اورسارا دن ریوائنڈ کرکرکے سنتا تھا‘ اب ایسا کچھ ہوجائے تو بجائے دُکھی ہونے کے، نیا عشق رچاتا ہے اور بدلے کے طور پر نئے محبوب کے ساتھ پہلی مشترکہ سیلفی پرانے محبوب کو واٹس ایپ کرتاہے۔پہلے وقتوں میں شادی سے پہلے منگنی کی ایک رسم ہوا کرتی تھی، آج کل منگنی کی جگہ محبت نے لے لی ہے۔میں نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ شادی نہیں ہوئی؟ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا’شادی کیسے کرلوں؟ ابھی تو محبت ہی نہیں ہوئی۔‘‘وہ وقت یاد کیجئے جب محبت کی کہانی کا آغاز اس طے شد ہ جملے سے ہوا کرتا تھا’آپ نے زندگی میں کبھی محبت کی ہے؟‘۔ اب یہ جملہ بھی بدل گیا ہے، اب سیدھا سیدھا کہا جاتاہے’آپ کا موبائل نمبر مل سکتا ہے؟‘۔پہلے محبوب سے ملاقات کی بہترین جگہ سینما گھر ہوا کرتی تھی، دونوں فریق کسی فلاپ فلم کا ٹکٹ لے کر آخری سیٹوں پر بیٹھتے تھے اور تھوڑی بہت فلم بھی انجوائے کرلیتے تھے ‘ آج کل ہینڈز فری کانوں سے لگاتے ہیں اور رات دس بجے گلی کے ایک نکڑ سے دوسرےنکڑ تک بلاوجہ مسکراتے ہوئے ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ابھی کل میں رات کو انڈے لینے باہر نکلا تو دوسری گلی میں ایک محلے دار کا لڑکا اسی سرشاری کی کیفیت میں گھوم رہا تھا، میں قریب سے خاموشی سے گزرا تو پیچھے سے اس کی آواز آئی’جانو! مجھ سے ناراض ہو؟‘ ۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں‘…جونہی اگلا قدم اٹھایا‘ مجھے جملے کی سمجھ آئی اور میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میں یکدم غصے سے پلٹا‘ میرا ٹرن دیکھ کر لڑکے نے چونک کر میری طرف دیکھا اور گھبرا کر اشارے سے بتایا کہ یہ بلیغ جملہ اس نے میرے لئے نہیں کہا۔
پہلے والدین اپنے لڑکے کو محبت کرنے پر سرعام تشدد کا نشانہ بنا دیا کرتے تھے، اب ماں باپ 12 سال کے بچے کو چھیڑتے ہوئے پوچھ رہے ہوتے ہیں’ہاں بھئی کوئی پسند آئی‘۔اور بچے بھی اس جملے کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ بیزاری سے کہہ دیتے ہیں’نہیں ڈیڈی! جب کوئی پسند آئے گی تو بتا دوں گا‘۔محبت کی شادی کرنے والوں کو پتا نہیں کیوں شادی کا اعتراف کرتے ہوئے شرم آتی ہے،آپ ایسے کسی بھی جوڑے سے مل کے دیکھ لیںان کی ایک ہی ضد ہوگی’ہم میاں بیوی نہیں آپس میں دوست ہیں‘۔ میں نے ایسے ہی ایک جوڑے سے پوچھا کہ تم لوگ اپنے آپ کو میاں بیوی کیوں نہیں سمجھتے؟ لڑکا بولا’کیونکہ میاں بیوی آپس میں دوست نہیں ہوسکتے‘۔ میں نے دانت پیسے…’بیٹا دوست بھی آپس میں میاں بیوی نہیں ہوسکتے!‘
کیا خوبصورت وقت تھا جب محبت میں مبتلا عاشق دور سے ہی پہچانا جاتاتھا۔ اداس چہرہ‘ اجڑے بال‘ ہاتھ میں ادھ جلا سگریٹ اورخالی خالی آنکھیں۔ آجکل تو جس عاشق کی محبت روٹھ جاتی ہے وہ کلکاریاں مارتے ہوئے دوستوں کو بتارہا ہوتاہے کہ’لے بھئی! جان چھوٹ گئی۔ایک وقت تھا جب لڑکی لڑکے کو بتاتی تھی کہ میرے گھر والے میرا رشتہ میرے ماموں کے بیٹے سے طے کر رہے ہیں تو لڑکا غش کھا کے گر جاتاتھا، اب ایسی کوئی خبر سنتے ہی لڑکا نہ صرف تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتاہے بلکہ لاپروائی سے پیزا کھاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتا ہے’ویری نائس…شادی کیs Pic ضرور Send کرنا‘۔محبت بالکل بدل چکی ہے لیکن اس کا نام آج بھی محبت ہے، روح نکل چکی ہے جسم باقی ہے‘ بالکل ایسے جیسے چڑیا گھر میں کوئی چڑیا نظر نہیں آتی لیکن نام پھر بھی چڑیا گھر ہے۔ہر طرف محبتوں کا اتوار بازار لگا ہوا ہے، محبت آلوئوں کی طرح مل رہی ہے، چھانٹ لو اور لے جائو۔
سیانے کہتے ہیں کہ محبت کی شادی پانچ ماہ چل جائے تو پانچ سال چل جاتی ہے، پانچ سال نکل لے تو پندرہ سال گزار جاتی ہے اور پندرہ سال گزر جائیں تو بندہ عادی ہوجاتاہے۔ اس لحاظ سے ہمارے ہاں ’عادی‘ لوگوں کی تعداد بھی دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔جدید زمانے میں شادی کے بعد کی محبت کا تصور مٹتا جارہا ہے‘ شادی شدہ جوڑا اگر یہ کہے کہ ہمیں شادی کے بعد محبت ہوئی تو لوگ ان کے دماغی توازن پر شک کرنے لگتے ہیں۔اصل میںتجربہ کار لوگوں کو یقین ہی نہیں کہ شادی کے بعد بھی محبت ہوسکتی ہے۔ مجھے پندرہ سال پہلے کا وہ بابا یاد آگیا جو میرے ہمسائے میں رہا کرتا تھا اور اپنی بیوی کو ہمیشہ’جانو‘ ڈارلنگ‘ سویٹ ہارٹ اورڈیئر کہہ کر مخاطب کرتا تھا، ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ بابا جی! آپ کی اس قدر محبت کی کیا وجہ ہے کہ آپ شادی کے پچاس سال بعد بھی اپنی اہلیہ کو اتنے خوبصورت اور رومانوی الفاظ سے پکارتے ہیں؟‘ باباجی نے دائیں بائیں دیکھا، پھر میرے کان کے قریب ہوتے ہوئے بولے’بیٹا بات یہ ہے کہ مجھے اس کا اصل نام ہی یاد نہیں رہا‘۔

.
تازہ ترین