• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہاجاتاہےکہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا،لیکن دیکھاجائے تو پاکستانی سیاست میں تو حرف اول بھی ابھی تک طے یا ادا نہیں ہوپایاہے۔ دوسری طرف اصول و نظرئیے سے انحراف اورذاتی مفاد سیاست کوپراگندہ توکرتاہے ،عوام کےاعتماد اوراعتقاد کو بھی شدید دھچکا پہنچاتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری جن کو مفاہمت کا "گروہ " کہاجاتاہے، شہید بے نظیربھٹو کی نویں برسی سےچند روز قبل خودساختہ یک سالہ و یکطرفہ جلاوطنی بظاہر ترک کرکےواپس آئےہیں تب سے سیاست کےایوانوں سے لے کر میڈیا کےستونوں میں ہلچل مچی ہے، بڑے سیاسی دھماکوں کی پیش گوئیاں کرنے والے 27 دسمبر کا خطابِ زرداری سن کرتقریبا مایوس ہوکرسوچنے پر مجبور ہیں کہ پیپلزپارٹی کے پاس اب ہےکیاکہ جو عوام کےسامنےبطور کارکردگی یامستقل سیاسی نعرے کے رکھے، سیاسی پنڈتوں کی نظر میں پیپلزپارٹی کی سندھ میں بطور حکمران اور وفاق میں اپوزیشن کی حیثیت سے کارکردگی گزشتہ پانچ سالہ دور سے کچھ بھی مختلف نہیں رہی، جبکہ "فرینڈلی اپوزیشن" کاکردار پیپلزپارٹی کے بنیادی نظرئیے ،حقیقی عوامی جماعت اوراس کےجمہوری تصور کو بھی گہناگیاہے،رہی سہی کسروزیراعظم نوازشریف کے پیپلزپارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت پرقائم رہنے اور مفاہمتی سیاست کو مزید آگے لےجانے کےایک بیان نے نکال دی ہے۔
بھٹو جیسے قائد کی رہنمائی میں پیپلزپارٹی کےقیام کےبعد اس کو عالمی سطح پرپذیرائی اورشناخت ملی،محترمہ بےنظیربھٹو نے چاروں صوبوں کی زنجیربن کرپیپلزپارٹی کو مقبول ترین قومی جماعت بنایا،تاہم ڈکٹیٹرکے دورمیں سرعام "قتل"کےبعد محترمہ کی جماعت نےحقیقی منشور اوربنیادی نظرئیےسےانحراف کا اس بری طرح آغاز کیا کہ "وہ " جن کو خود"شہید جمہوریت "قتل کی صورت میں نامزد کرکےگئیں انہیں ایوانوں میں عزت توقیربخش کر شامل اقتدار کرلیا،پھر سب کچھ بدل گیا،پانچ سالہ کارگزاری کا 2013 کے انتخابات میں عوام نےووٹ سےبدترین انتقام لیا،سندھ میں بمشکل دوبارہ اقتدار ملالیکن پارٹی کی بقا اور مقبولیت کی بحالی کی بجائے مفادات کی خاطراپوزیشن کےکردار کےتصور کو ہی بدل کررکھ دیاگیا۔بعض تجزیہ کاروں کی رائےمیں زرداری صاحب نے پارلیمانی سیاست میں آنے کا اعلان "بوجوہ" اور "بڑے بھائی" کی مشاورت اور اعتماد سےکیا جو اچانک نہیں اس پر کچھ ماہ پہلے سےہی دونوں جماعتیں کام کررہی تھیں اور اسکا بنیادی اور واحد مقصد "تیسری بڑی سیاسی قوت "کو ہرصورت انتخابی سال کےدوران پارلیمان میں بھرپور سیاست سے روکنا ہے،اسکی جھلک حالیہ دنوں میں عوام ٹی وی اسکرینز پربراہ راست بھی دیکھ چکےہیں۔
سیاست کے میدان پرنظرڈالی جائےتو پیپلزپارٹی کےمفاہمانہ ودوستانہ کردار نےتحریک انصاف کو احتجاجی سیاست کابھرپور موقع اور اسےپروان بھی چڑھایا ہےجبکہ پی ٹی آئی نےحقیقی اپوزیشن کےکردار کوخوب نبھایابھی ہے،سیاسی تجزیہ کاروں کولگتاہےسردست سیاسی کارکردگی کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کی جھولی خالی اور تحریک انصاف کی جھولی میں کرپشن کےخلاف احتجاج اورشور سمیت کے سوا کچھ نہیں،تاہم معمولی کارکردگی پرعوامی پذیرائی اس کامقدربدل بھی سکتی ہے۔
قارئین کرام،ملکی سیاست میں اپوزیشن کا کردار تقریبا بدنام ہوچکا،کیونکہ وطن عزیز میں سب کی چاروں گھی اور سر کڑاہی میں ہے،تاہم حقیقت یہی ہےکہ2018 میں بھی ووٹ کارکردگی اور عملی عوامی ترجیحاتی ایجنڈے کی بنیاد پر ہی ملیں گے، پیپلزپارٹی نےبزرگ ترین سے جوان قیادت کی محض انتظامی تبدیلی کرکے عوامی ترجیحات کا اشارہ تو دیاہے لیکن عملی کارکردگی ،عوامی فلاح وترقی ،کرپشن کےخاتمےکےلئے "حیران کن" اقدامات کا انتظار باقی ہے کیونکہ زرداری صاحب کے جانے کے بعد اور آنے سےذرا پہلے ان کے دو انتہائی قریبی ساتھی "اندر"ہوچکےہیں ،خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کرپشن کےمکمل خاتمےسمیت اپنے منشور پر پورا عمل میں کامیاب تونہیں ہوئی تاہم تعلیمی وصحت کے شعبے میں بہتری اور پولیس ریفارمز سمیت بعض دیگراقدامات نے عوام کی ڈھارس ضرور بندھوائی ہے،، بلوچستان میں کرپشن کا اربوں روپےکا میگا اسکینڈل سامنے آنے کےبعد بھی صوبے میں "دوستانہ سیاسی میچ" جاری ہےجس میں عوام کو شکست نہیں تو فتح بھی نظر نہیں آرہی ہےتاہم فوج کےقیام امن کی کوششوں نے کسی حد تک بہتری کےآثار نمایاں ضرورکئےہیں، پنجاب تو پھرپنجاب ہےبڑا بھائی بھی ہے اور بڑا حصے دار بھی ،آٹھ سال سےن کی حکومت ہے،وفاقی اور پنجاب میں سڑکوں ،پلوں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں سے "کارکردگی "منوانے کا زور جاری ہےلیکن بقول ایک ن لیگی رہ نما کے" 29نومبر"کےبعد ٹوئٹ کہ"طوفان گزر گیاہے" کے فوری بعد سردیوں میں بھی پھرسےگھنٹوں کی بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع کردی گئی ہے، سال پہلے کے"متفقہ "بیان کی عکاسی کرتاہے جس میں زرداری صاحب نےکہاتھاکہ"آپ " نے تین سال نوکری کر کے چلے جانا ہے، ہم نے یہیں رہناہے۔۔! دفاعی تجزیہ کارکہتےہیں کہ آرمی کی قیادت بدلی ہےلیکن گزشتہ تین برسوں میں دہشت گردی و کرپشن کےخلاف فیصلہ کن اقدامات اوراقتدار سے دور رہتے ہوئےپیشہ ورانہ مورال کو بلند کرنا دراصل فوج کےلئے"راحیلی ورثہ" کی حیثیت رکھتے ہیں جس پر شاید دونوں بڑی جماعتیں کہیں واضح اور موثر کردار کی بجائے محض تماشائی ہی بلکہ خائف تماشائی کا کردار ادا کرتے نظر آئی ہیں۔ سیاسی ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مفاہمت کا عوام کو پہنچنے والانقصان اپنی جگہ لیکن اس کا سب سے بڑا شکار اور ہاتھ پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی ہوگاکیونکہ بغیر کارکردگی محض شہیدوں کےمزاروں پر مجاوری سے کچھ نیک نامی تو حاصل ہوسکتی ہے، عوام کو خوش کرنا یا ان سے ووٹ لینا ممکن نہیں ۔ ایسی صورت حال میں جب پیپلزپارٹی کی حالت سمٹتی،سکڑتی اور ٹھٹھرتی نظر آتی ہے اسے عوام کےدیگرکئی سوالوں کےعلاوہ بی بی کے اصل قاتلوں کواب تک نہ پکڑےجانے اورانہیں انجام تک نہ پہنچائےجانےجیسےچبھتےسوال کابھی جواب دینا ہوگا،تبصرہ کاروں کےخیال میں پارٹی کو زندہ کرنے کی خاطر بلاول بھٹو زرداری کی صورت جوشیلے نوجوان کو لانچ کرنا یقینا ایک اچھی کوشش تھی لیکن محض بی بی بھٹو کا بیٹا ہونا اور طرز خطابت کی تربیت، اچھی تقریریں یاد کرانااور "بھاری آوازوں " سےنشرکرانے سے حقیقی مقصد کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتاہے۔پیپلزپارٹی بلاشبہ ایک ایسی نظریاتی اور جمہوری جماعت کے طور پر ایسی صلاحیت دکھا سکتی ہےکہ عوام کےدلوں پرپھر سے راج کرسکے ،"دھاڑنے" اور طعنہ زنی کو طرزِ سیاست بنانے کی بجائےجمہوری بردباری اور اپنی روایتی اورحقیقی سیاسی پہچان کی طرف لوٹنا اور پارٹی کوسندھ کےگوٹھوں اور محلوں تک محدود ہوجانے کےالمیے سے نکالنا "لیڈرشپ "کی ذمہ داری ہی نہیں ایک بڑاچیلنج ہے،سیانےکہتےہیں کہ ایک "شیر "کی موجودگی میں "شیر" کا دوست بن کر شیر بننا سمجھ داری کا تقاضا ہے نہ آسان،کیونکہ "جنگل "میں ایک وقت میں ایک ہی شیرحکومت کرسکتاہے اور وہی اصلی "شیر"ہوتاہے۔۔۔۔!

.
تازہ ترین