• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب رئیس امروہوی صاحب نے یہ مصرع اردو بولنے والوں کی حمایت میں لکھا تھا یہ یونہی نہیں لکھ دیا گیا تھا اس کے پیچھے بہت سے حقائق تھے وہی عوامل آج بھی کراچی میں آباد اردو بولنے والوں کو درپیش ہیں۔ اس وقت بھی سندھ میں خصوصاً پیپلز پارٹی کی حکومت تھی آج بھی سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جبکہ مرکز میں نواز لیگ حکمران ہے کراچی کی بد نصیبی یہ ہے کہ یہاں اردو بولنے والوں نے اپنی شناخت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنا ووٹ بینک اپنے طریقے سے استعمال کرنا شروع کردیا ہے کراچی میں نہ پیپلز پارٹی کو نہ نواز لیگ کو یا کسی اور سیاسی جماعت کو صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوتی ہے جبکہ مرکز اور صوبوں میں حکومت میں اردو بولنے والے شریک اتحادی کے طور پر شامل تو ہوجاتے ہیں لیکن کراچی کے مسائل اس طرح حل نہیں کر پاتے جس طرح کراچی کی ضروریات اور حق ہے اب موجودہ حکومت سندھ نے کراچی اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات تو کرا دئیے وہ بھی مجبوراً کیونکہ عدالت عظمیٰ کا حکم جو آگیا تھا تمام بڑے اور اہم شہروں میں حکمران جماعت کی تمام تر کوشش کے باوجود اردو بولنے والوں نے میدان مار لیا اور حکمران جماعت اپنا سا منہ لے کر رہ گئی اس باعث وہ بلدیاتی نمائندوں کو نہ تو اختیارات سونپ رہی ہے نہ ہی فنڈ فراہم کر رہی ہے کیونکہ اگر فنڈ اور اختیارات دے دئیے جاتے ہیں تو اس کا تمام تر فائدہ اردو بولنے والوں کی جماعت ایم کیو ایم کو پہنچے گا جو سندھ کی حکمران جماعت کو کسی صورت گوارا نہیں۔
کراچی جو اپنی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے تمام شہروں سے ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے بہت بڑا ہے اسی سبب اس شہر کے شہری مسائل بھی کہیں زیادہ ہیں جن میں حکمران جماعت کی بے اعتنائی نے مزید اضافہ کر دیا ہے سب سے اہم مسئلہ صاف پینے کا پانی ہے اور گندے استعمال شدہ پانی کی نکاسی کا ہے اس کے علاوہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ کراچی کو دانستہ طور پر سزا دی جا رہی ہے مرکزی حکومت کی جماعت ہو یا صوبائی حکومت کی جماعت دونوں کو ہی کراچی سے قطعی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کراچی ان کے لئے علاقہ غیر کی حیثیت رکھتا ہے کراچی کے مسائل کے پیش نظر ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کو کہنا پڑا ہے کہ کراچی کو پینے کے لئے گٹر کا ملا پانی اور کھارا پانی دیا جا رہا ہے کیونکہ کراچی واٹر بورڈ کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ کراچی کی تمام آبی ضروریات پوری کرسکے واٹر بورڈ والوں کے مطابق پانی سپلائی کرنے والی تمام مشینری اس قدر پرانی اور خستہ ہوچکی ہے کہ اس کا تبدیل ہونا ضروری ہے لیکن اس کی تبدیلی اس لئے ممکن نہیں کہ حکومت فنڈ فراہم نہیں کر رہی یہی حال تمام بلدیاتی اداروں کا ہے عدالتی حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کرا دئیے گئے لیکن وہ بے اختیار ہیں نہ انہیں ان کے بلدیاتی اختیار سونپے گئے اور نہ ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لئے فنڈ ہی مہیا کیے گئے ہیں حکمران جماعت اور بلدیاتی ارکان کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ہو رہی ہے جس کا تمام تر نقصان اہل کراچی کو ہو رہا ہے کراچی میں نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ ہی گندے پانی کی نکاسی کا معقول انتظام ہے اور نہ ہی سیوریج کے پانی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی جا رہی ہے اور نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہو رہی ہے اور نہ ہی گیس گھریلو صارفین کو پوری طرح فراہم کی جا رہی ہے بس ایک قدرتی ہوا ہے جس پر حکمرانوں کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ بھی پابند کردی جاتی ہاں اس کی شفافیت کو ضرور متاثر کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم جس کی حمایت کی سزا اہل کراچی کو دی جا رہی ہے اسے بھی اہل سیاست کی طاقتور جماعتوں نے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے کچھ وہ اپنی نادانی یا زیادہ اعتماد کے باعث غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہے ہیں اپنے مخالفین کی توقعات پر پورا اترنے لگے ہیں اب جبکہ نئے انتخابات کی ہَوا چل پڑی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں کمر کسنے لگی ہیں، سندھ کی حکمران جماعت نے بھی نہ صرف آنے والے انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے بلکہ اس کو پر اثر کرنے کے لئے اپنے حقیقی سربراہ جناب زرداری صاحب کو بھی وطن واپس بلا لیا ہے تاکہ الیکشن مہم کو بھرپور انداز میں چلایا جاسکے جو کام بلاول بھٹو زرداری نہیں کر پا رہے تھے اسے پورا کرنے کے لئے زرداری صاحب کو اپنی خود اختیار جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آنا پڑا کیونکہ ان کے اور ان کے رفقا کے خیال کے مطابق بلاول بھٹو ابھی بچہ ہے وہ اپنے حریفوں کا اس طرح مقابلہ نہیں کرسکتا جیسا اسے ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر کرنا چاہئے ۔ ایم کیو ایم لاکھ منتشر اور اختلافات کا شکار ہونے کے باوجود انہیں ڈرا رہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں انہیں ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانا پڑے گی کیونکہ انہوں نے بڑے شہروں کے مسائل تو اپنی جگہ دیہی آبادیوں کے مسائل بھی حل کرنے کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی، اس لئےضروری ہے کہ اردو بولنے والوں کی جماعت چاہے جتنے حصوں میں بھی تقسیم ہو اسے آگے نہیں آنے دیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے خصوصاً کراچی، سکھر، میر پور خاص جہاں جہاں سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا اب بھی وہ ان علاقوں میں کامیابی حاصل کرنے سے خوف زدہ ہے اس ہی سبب وہ ایم کیو ایم کو گندہ کرنے کے لئے اس کے ووٹ بینک کو اپنی جماعت سے ناراض کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں بلدیاتی نظام کو چوپٹ کر کے رکھ دیا گیا ہے دراصل یہ اردو بولنے والوں کو اپنے حق کے حصول کی کوششوں کی سزا دی جا رہی ہے ایسےہی حالات نے جناب رئیس امروہوی صاحب کو یہ کہنے پر مجبور کیا تھا کہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ اللہ ہمارا ہمارے وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو اور اہل خرد کو عقل سلیم عطا فرمائے، آمین۔

.
تازہ ترین