• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے پیارے دیس میں آنکھ کھولی تو والدین کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ عزیز و اقارب مبارک بادیں دیتے نہیں تھکتے تھے کہ خاندان کا نام روشن کرنے والا آگیا ہے۔ قدم قدم چلنا سیکھا، شعور آتا گیا، والدین کی انگلی پکڑ کر اسکول جانا شروع کیا، پرائمری سے مڈل اور پھرمڈل سے ہائی اور اُس کے بعد کالج پہنچا۔ میرے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ میرے والدین کے خواب بھی بڑے ہوتے گئے۔ کبھی وہ مجھے فوجی آفیسر کے رُوپ میں دیکھتے، کبھی پولیس مین، ڈاکٹر اور کبھی سول سرونٹ کا لقب دیتے، میری ماں یہ کہتے نہیں تھکتی تھی کہ میرا بیٹا بڑا آفیسر بن کر ماں باپ کا نام روشن کرے گا۔ اِسے بہترین تنخواہ ملے گی، آسائشیں ہوں گی جس کی وجہ سے ہم غریبی کی زندگی سے نکل جائیں گے۔ بڑے گھر میں شادی اور خوبصورت’’ بہو‘‘ لانے کے خواب میرے والدین اپنی آنکھوں میں سجائے اِس جہاں فانی سے کُوچ کر گئے۔ والدین کی وفات کے بعد ذمہ داریوں کا ایک پہاڑ مجھ پر آن گرا تھا۔ بہشتی والدین کے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے اپنی تعلیمی اسناد کے ساتھ مختلف دفاتر کے چکر لگاتا رہا، لیکن دولت اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی میرا مقدر بنی۔ مایوس ہو کر دیار ِ غیر میں اپنا اور اپنے بہن بھائیوں کا بہتر مستقبل تلاش کرنے کی ٹھان لی۔ جان جوکھوں میں ڈال کر میں یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ نیا دیس، نئی زبان، نئے لوگ، پریشانیوں کی راتیں، سوچوں کے دِن، یورپ میں وقت گزارنا محال تھا۔ ایک دِن ایسا پاکستانی فرد ملا جسے شاید میرے جیسے حالات کا سامنا رہا تھا۔ اُسے میری حالت پر رحم آ گیا، اُس نے اپنے ساتھ ٹھہرانے کی پیشکش کی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ پھر اگلے دِن پتا چلا کہ نئے دیس میں کوئی چیز بھی مفت نہیں ملتی۔ مکان تو دُور کی بات جس چارپائی پر سوتے اُس کا ماہانہ کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہم چند دوستوں نے مل کر ایک جگہ رہائش اختیار کر لی اب ہم تمام اخراجات بانٹ لیا کرتے تھے۔ کچھ احباب نے حوصلہ دیا اور ڈھارس بندھائی جس کی وجہ سے ہم روزانہ کام تلاش کرنے نکل پڑتے تھے۔ لیکن میرے پاس یورپ میں قانونی کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کام نہیں ملتا تھا۔ شب و روز گزرتے گئے، کبھی اُمید بندھتی اور کبھی ٹوٹ جاتی، کوئی مدد کرتا تو کوئی مُلک بدری جیسے ڈراؤنے خواب دکھا دیتا۔ پھر وہ دِن آگیا کہ میں نے اسپین میں اپنے قانونی رہائشی ’’پرمٹ‘‘ کے لئے تین سال کی مدت کا ایک مرحلہ عبور کر لیا اِس عرصے میں کچھ مقامی زبان آگئی اور میں یہاں کے قوانین بھی سمجھنے لگ گیا۔ ایک دِن میں نے بارسلونا میں ایک پاکستانی کی دُکان پر آویزاں اشتہار پڑھا جس پر ’’اپیل چندہ برائے میت‘‘ لکھا ہوا تھا، نیچے لکھا گیا تھا کہ ایک پاکستانی وفات پا گیا ہے اُس کی میت کو وطن بھیجنے کے لئے چندے کی اپیل ہے، اِس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ اشتہار پڑھتے ہی بہت سے سوالات میرے ذہن میں آئے اور میں گہری سوچ میں گم ہو گیا، میں سوچ رہا تھا کہ جو تارکین وطن پاکستانی یورپی ممالک میں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں اور محنت سے کمائے گئے پیسے جب وطن عزیز بھیجتے ہیں تو وہ رقم زر ِمبادلہ کی صورت میں ’’آئی ایم ایف‘‘ کی قسطوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بیرونی تجارتی خسارے پر قابو پانے کے کام آتی ہے اور بڑے بڑے وزراء اور افسروں کے بیرون ممالک شاہانہ دوروں پر بھی یہی زرِمبادلہ کام آتا ہے۔ ہمارے حکومتی نمائندگان ’’آئی ایم ایف‘‘ سے ملنے والے ’’قرضوں‘‘ پر خوشی کے شادیانے بجاتے تھکتے نہیں ہیں، حالانکہ یہ رقم قابل واپسی ہوتی ہے جبکہ بیرون ملک سے لاکھوں فرزندان وطن بیس ارب ڈالرز سالانہ تک کا زر ِکثیر پاکستان بھیجتے ہیں، آیا اُن تارکین وطن پاکستانیوں کی موت کے بعد اُن کا اپنی حکومت اور دُوسرے ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں پر اتنا بھی حق نہیں کہ اُن کی میت کو اپیل برائے چندہ کے اشتہار لگائے بغیر باعزت طور پر وطن پہنچایا جائے۔ میں وزارت خارجہ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو فوری طور پر احکامات جاری کرے کہ وہ دُوسرے ممالک میں وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی میتوں کو تمام اخراجات ادا کر کے پاکستان پہنچانے کا عمل یقینی بنائیں۔ یورپی ممالک میں وفات پا جانے والے کسی بھی پاکستانی کی میت کو وطن پہنچانے کے لئے 3500 سے5ہزار یوروز تک خرچ ہوتا ہے اور کچھ صورتوں میں یہ خرچ 6 ہزار یوروز سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ بارسلونا میں مسلمانوں کے لئے مخصوص قبرستان میں تدفین کے لئے قبر کرائے پر حاصل کی جاتی ہے جس کی قیمت 8,900 یوروز مقرر ہے تابوت اور ڈاکٹروں کی فیسیں اِس کے علاوہ ہوتی ہیں۔ یہاں کرائے پر ملنے والی ایک قبر میں اُوپر نیچے تین افراد کو دفن کیا جا سکتا ہے۔ حکومت پاکستان تارکین وطن پاکستانیوں کی میت کو وطن پہنچانے یا یورپی ممالک کے قبرستانوں میں دفن کرنے کے مکمل اخراجات ادا کرنے کی ذمہ داری اُن ممالک میں قائم سفارت خانے اور قونصل خانوں پر عائد کرے کیونکہ یہ ادارے پاسپورٹ کی تجدید، نیا پاسپورٹ، شناختی کارڈ کی ہوشربا فیس اور دوسری قانونی دستاویزات کی تصدیق کی مد میں روزانہ کثیر رقم اکھٹی کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے قومی ائیر لائن اسپین سے پاکستانیوں کی میت مفت لے جاتی تھی لیکن اب ہماری قومی ائیر لائن نے میت کو اپنے جہازوں میں لے جانے پر پابندی عائد کر دی ہے اب پاکستانیوں کی میتیں قومی ائیر لائن کی بجائے دوسرے ممالک کی ائیر لائنز کے ذریعے پاکستان پہنچتی ہیں اِس زیادتی پرا سپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا ہر فرد سراپا احتجاج ہے۔ اسپین میں مقیم پاکستانی اپنی زندگی کا بیمہ بھی کروا رہے ہیں لیکن جو پاکستانی ایسا نہیں کر پاتے انہیں حکومتی تعاون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اسپین میں مختلف برادریوں، مذہبی تنظیموں، سماجی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مل کر ایسی کمیٹیاں ترتیب دے رکھی ہیں جو اپنے ممبران کی تدفین کا سارا انتظام کرتی ہیں لیکن تارکین وطن پاکستانیوں کی زیادہ تعداد ایسی کمیٹیوں کی ممبر شپ سے ابھی تک محروم ہے، حکومت پاکستان، سفارت خانہ پاکستان میڈرڈ اور قونصل جنرل آف پاکستان بارسلونا کی پاکستانیوں کی میت وطن واپس بھیجنے میں عدم توجہ نے مجھے سبق سکھایا ہے کہ میں بھی جلد کسی تدفین کمیٹی کا ممبر بن جائوں تاکہ میری میت پاکستان پہنچانے کے لئے ’’چندہ برائے میت‘‘ کا اشتہار نہ لگانا پڑے۔




.
تازہ ترین