• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتے کی شام سالِ نو کے بارے میں اپنی خوش گمانیوں میں گم تھا اور دُنیا بھر کے نوجوانوں کو ہنستا گاتے دیکھ کر طبیعت ایسی ہشاش بشاش تھی کہ ایک بہت ہی لطف انگیز کالم لکھنے کو من مچل رہا تھا کہ اتنے میں ایک ایسی دھماکہ خیز خبر ملی کہ اوسان خطا ہو گئے۔ ایسے میں جنرل راحیل شریف کی اس ’اُمید افزا‘ یقین دہانی کہ 2016ء میں دہشت گردی کا قلع قمع ہو جائے گا بھی کہیں بِسر کر رہ گئی۔ ٹوئٹر پر پٹھانکوٹ پر فدائی حملہ کی خبر سے ہاتھوں کے طوطے تو کیا سبھی کچھ ہوا میں اُڑ گیا۔ بھارتی ٹی وی چینل کھولے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ابھی پٹھانکوٹ کے بھارتی ایئرفورس کے ہوائی اڈے پر مقابلہ جاری تھا لیکن رپورٹرز کو تمام ثبوت مل چکے تھے کہ اس میں ہاتھ ہماری طرف کا ہے۔ اور یہ کہ چھ کے قریب عسکریت پسند ناروال کے راستے 28 کلومیٹر دور پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے میں داخل ہو چکے تھے۔ ہوائی اڈے میں گھسنے سے پہلے بہاولپور میں مبینہ طور پر چار ٹیلیفون کال کی گئیں، جس سے ظاہر کیا گیا کہ حملہ آوروں کو ہدایات بہاولپور سے ملی تھیں۔ چار حملہ آوروں کے مارے جانے سے پہلے ہی یہ ثبوت مل چکے تھے کہ اس میں ہاتھ مبینہ طور پر ایک کالعدم ملیشیا کا ہے جس کا ہیڈکوارٹر بہاولپور میں بتلایا گیا۔ پھر جو میڈیا ٹرائل چلا کہ خدا کی پناہ۔ ابھی یہ ہوشربا مناظر ہضم بھی نہیں ہو پا رہے تھے کہ دہلی سے ٹائمز نائو (Times Now) سے فون ملا کہ ارناب گوسوامی کے نیوز آور (News Hour) میں شریک ہوں۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے، مَیں نے معذرت کی کہ میں سوامی کی گرمیٔ گفتار کی تاب لانے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔ پھر بھی اِس تجسس کی تشفی بنا رہ نہ سکا کہ دیکھتے ہیںکہ کون جغادری میدانِ کارزار میں اُترتے ہیں۔ دیکھتا کیا ہوں کہ بھارت کے نامی گرامی نفرت انگیزی کے ماہرین کے سامنے ہمارے ایک سابقہ وائس ایڈمرل، ایک گروپ کیپٹن اور ایک کم گو اور شریف سفارتکار برسرِپیکار ہیں۔ اب ایک طرف ارناب گو سوامی اور اُس کے عقاب اور دوسری جانب ہمارے شاہین، پھر کیا تھا ایسی مغلظات کا دیوانہ وار مقابلہ ہوا کہ ٹیلی وژن بھی جواب دے بیٹھا۔ اور یہ نہ دیکھ پایا کہ ہمارے نواز لیگ کے نہال ہاشمی کس خوشی میں اِس گناہِ بے لذت میں شامل ہوئے تھے۔ یہ دھماچوکڑی دیکھتے ہوئے یہ خیال بارِگراں بن کر دل و دماغ کو جھنجھوڑتا رہا کہ کیا ایسے میڈیا کو امن کی راہ سجھانے کیلئے مَیں نے اور بہت سے دوستوں نے سیفما کے پلیٹ فارم سے اپنی زندگی کے پندرہ سال کیوں وقف کیے تھے، اگر اس کا یہی حاصل تھا۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم مودی کی اچانک لاہور یاترا کے بعد ایسی اشتعال انگیزی کا آخر کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ یادش بخیر روس میں میاں نواز شریف کی مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد گورداسپور میں بھی اسی سے ملتا جلتا دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا۔ لیکن اس بار ہر دو اطراف زیادہ سنجیدہ نظر آئیں کہ بات چیت شروع کی جائے کہ جنگ چارئہ کار نہیں! بھارتی حکومت کا ردِّعمل پہلے روز نپا تلا رہا۔ بھارتی وزیرداخلہ اور وزیراعظم نے براہِ راست پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے سے اجتناب کیا اور لگتا ہے کہ 15/16 جنوری کو اسلام آباد میں خارجہ سیکرٹریوں کے مابین ہمہ نو ایجنڈے پر بات چیت شاید ملتوی نہیں ہوگی۔ تاہم بھارت کے بعض عناصر کی جانب سے پیدا کئے جانے والے تاثر کے مطابق اگر غیرریاستی عناصر کی جانب سے ایسا بفرضِ محال کیا بھی گیا ہے تو یہ ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ اپنی سرزمین کو ہمسایوں اور دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دینے کی ہماری ریاستی یقین دہانیوں پہ کوئی کیوں یقین کرے گا۔ اور یہ کہ ہر طرح کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے ہمارے قومی عزم میں ابھی بھی کیا لغزش اور استثنیٰ کارفرما ہیں؟ بھارتی ٹیلیویژنز پر ’’اچھے طالبان‘‘ کی طعنہ زنی تھی کہ چلی جا رہی تھی۔ حقیقت کچھ بھی ہو ہم پر عالمی سفارتی دبائو کافی بڑھے گا اور ہمیں اپنی پوزیشن کو واضح کرنے میں کافی دقت پیش آئے گی۔ ہمارے دفترِ خارجہ نے پٹھانکوٹ میں دہشت گردی کی مذمت کی ہے اور اس کالم کی اشاعت تک غالباً اعلیٰ سطحی رابطے بھی کئے جا چکے ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ دہلی پھر سے الزام بازی اور ہم جوابی الزام تراشی میں پھنس کر رہ جائیں، بہتر ہو گا کہ اب ایسا کوئی قابلِ اعتبار دو طرفہ میکینزم بنا لیا جائے جس کے ذریعہ دہشت گردی کے خطرات سے علاقائی سطح پر نپٹا جا سکے۔ جب بھی بات چیت شرو ع ہوتی ہے تو ہم رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مظاہرے ہمیشہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور مخصوص حلقے خوب بغلیں بجاتے ہیں۔
بھارت میں کئے جانے والے پروپیگنڈے میںجو سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آیا جس امن کی منشا کا وزیراعظم نواز شریف اظہار کرتے آئے ہیں کیا واقعی وہ ہمارے سلامتی کے اداروں کی بھی اِچھا ہے؟ بظاہر آثار یہی ہیں کہ سبھی ایک صفحے پر ہیں اور ہونے بھی چاہئیں وگرنہ مشکل علاقائی ماحول میں ہم بطور ایک ذمہ دار مملکت کیا کردار ادا کر پائیں گے۔ یقینا مودی کے خیرسگالی کے دورے نے واجپائی کی لاہور یاترا کی اچھی یاد تازہ کر دی تھی۔ اب اس واقعے نے پھر سے ماحول کو مکدر کر دیا ہے۔ پاکستان جو خود دہشت گردی کے عذاب سے دست و گریباں ہے اور اس کی شمال مغربی سرحد انتہائی غیرمستحکم، ایسے میں بھارت کے ساتھ انگشت زنی کسی طور پر ہمارے سلامتی کے تقاضوں سے لگا کھاتی نہیں دکھتی۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف وجودی جنگ اور افغانستان میں استحکام لانے کی کوششوں سے ہماری توجہ ہٹانا چاہتے ہیں اور ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں جو ہمارے قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں؟ اگر اس میں کسی کا ہاتھ ہو سکتا ہے تو وہ وہی قوتیں ہیں جو پاکستان اور افغانستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ اور پاکستان کو بھارت سے بے وقت اور بے مقصد تنازعے میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔ بھارت کو بھی اس کی سمجھ ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر 2016 ءاپنے اندر امن و آشتی سے دوری کے سامان لئے ہے اور ہمیں اس کے سدباب کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
ابھی یہ کالم جاری تھا کہ ایک اور افسوسناک خبر سننے کو ملی۔ بھارت کے ایک بہت ہی امن پسند اور ترقی پسند بزرگ رہنما جناب اے بی بردھن ہفتہ کی شام وفات پا گئے۔ رفیق بردھن سے میری بہت پرانی رفاقت رہی ہے۔ وہ لمبے عرصے تک ٹریڈ یونین تحریک اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری رہے۔ مَیں ہی ان کا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے جنرل سیکرٹری ہرکشن سنگھ سرجیت کے پاکستان کے دورے کے دوران میزبان تھا۔ ان دونوں حضرات نے منموہن سنگھ حکومت کو جنرل مشرف کے ساتھ بات چیت پر راغب کیا تھا۔ اور ان دونوں جماعتوں کے قائدین کو مَیں نے اس بات پر مائل کیا تھا کہ وہ نیپال میں مائوسٹ کے ساتھ بات چیت کی راہ ہموار کرائیں اور کانگریس حکومت کی زیرِقیادت پی ڈی اے حکومت کو راضی کریں کہ وہ اس میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ یہ بردھن اور سی پی آئی ایم کے رہنمائوں کی بصیرت تھی کہ اُنہوں نے نیپال میں سیاسی سمجھوتے کی راہ ہموار کی اور وہاں طویل خانہ جنگی اختتام کو پہنچی۔ بردھن کی پارٹی تو سکڑتی چلی گئی، لیکن ان کا بھارتی سیاست میں مثبت کردار کئی عشروں تک اپنے رنگ دکھاتا رہا۔ اُن کے جانے سے برصغیر ایک اور جہاندیدہ انسان دوست لیڈر سے محروم ہو گیا۔ کسی نے دانش، استقامت، عوام دوستی اور امن پسندی کے ساتھ ساتھ سادگی دیکھنی ہو تو وہ بردھن کی زندگی کا مطالعہ کرے۔ کاش ایسے لوگ برصغیر پاک و ہند میں اتنے مؤثر ہوتے کہ جنگ و جدل کی لکیر ہمارے مقدر سے ناپید ہو جاتی۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں جا پہنچی۔ زندگی کی طرح یہ کالم بھی طلاطم کا شکار ہوتا چلا گیا۔ کہاں جشنِ سالِ نو اور نوجوانوں کی زندگی سے بھرپور دلداریاں اور کہاں پٹھانکوٹ میں دہشت گردی کی اشتعال انگیزی اور پھر بردھن کی موت کی خبر۔ کیا 2016 ایسے ہی نادیدہ واقعات کے ساتھ بھرا ہوگا یا پھر کچھ اور؟ لگتا ہے کہ معاملات کچھ بہتر ہوں گے، کم از کم پاکستان میں حالات بہتری ہی کا رُخ لیتے نظر آ رہے ہیں بشرطیکہ ہم مہم جو عناصر سے ہوشیار رہیں، دہشت گردی کی حربی طاقت ختم اورانتہاپسند بیانیوں کو لگام دے پائیں اور جمہوریت کو پٹری پہ چلتے رہنے دیں۔ مشکل فقط افغانستان کے حالات کی ہے کہ وہ کیا رُخ لیتے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ بھارت کے ساتھ بات سے بات بنتی چلی جائے۔ میاں نواز شریف نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ خطے میں امن کے علاوہ کوئی راہ نہیں اور عمران خان نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ ہم کب تک ماضی کی لڑائیوں میں پھنسے رہیں گے۔ تو کیوں نہ ہم 2016 ءکو جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے یقین دہانی کرائی ہے، دہشت گردی کے خاتمے کا سال بنائیں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و آشتی کے نئے دور کا آغاز کریں۔ وما علینا الا البلاغ!
تازہ ترین