• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم دنیا میں بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ، اس بحران سے نکلنے کیلئے جو راستے اختیار کئے جا رہے ہیں ، وہ مزید تباہی کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔ دہشت گردی نے مسلم معاشروں کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں ۔ ان کی تاریخی عظمت کو اپنے لوگوں کیلئے احساس تفاخر کا ذریعہ نہیں رہنے دیا اور مسلم دنیا کے لامتناہی خزانوں کو غربت ، مایوسی ، آمریت اور انتہا پسندی کا ماخذ بنا دیا ہے ۔ پہلے القاعدہ ،طالبان ، بوکوحرام اور دیگر دہشت گرد تنظیموں نے مسلم دنیا کوتقریباً ڈیڑھ عشرے تک افرا تفری ، خونریزی اور انتشار میں مبتلا رکھا ۔ان تنظیموں کا ابھی تک مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اور اب ایک نئی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام ( داعش ) یا دولت اسلامیہ (آئی ایس ) ایک بڑا خطرہ بن کر اسلامی دنیا میں نمودار ہوئی ہے ۔ اس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے جو کچھ کیا جا رہا ہے ، وہ ماضی قریب کی تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں بہت سے خطرات کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ داعش کے خلاف34اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد قائم کیا گیا ہے ، جسے امریکی صدر باراک اوباما نے ’’ سنی ریاستوں ‘‘ کا فوجی اتحاد قرار دیا ہے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک اس اتحاد کو اسلامی ممالک کا اتحاد نہیں قرا ردے رہے بلکہ وہ وہی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں ، جو امریکی صدر نے استعمال کی ہے ۔ وہ جب بھی اس اتحاد کی بات کرتے ہیں ، اسے سنی ریاستوں کے اتحاد کا نام دیتے ہیں ۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یہ اصطلاح استعمال کرکے براہ راست دنیا میں یہ تاثر پختہ کر دیا ہے کہ مسلم دنیا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایران ، عراق ، شام اور عمان اس فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہیں ، جو برادراسلامی ملک کی قیادت میں قائم کیا گیا ہے ۔ مسلم دنیا کی قیادت شاید یہ اندازہ نہیں لگا رہی ہے کہ وہ کس طرح ایک بڑے کھیل میں الجھتی جا رہی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مسلم ممالک کو اپنی پوری طاقت اور وسائل استعمال کرنے چاہئیں لیکن ان بین الاقوامی حقائق کو ضرور مدنظر رکھا جانا چاہئے ، جن کی وجہ سے مسلم دنیا اس مرحلے تک پہنچی ہے۔آج دہشتگردی کے خلاف ایک رائے ہونی چاہئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شام اور عراق داعش کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ہیں اور داعش نے یہاں تباہی پھیلا رکھی ہے ۔ داعش نے شام اور عراق کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرکے خود ساختہ خلافت قائم کر رکھی ہے لیکن یہ دونوں ممالک مذکورہ فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہیں ۔برادر اسلامی ملک کے مفتی اعظم نے داعش کو اسرائیلی فوج کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ داعش کے جنگجو اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ انہیں اسلام کا پیروکار نہیں سمجھا جا سکتا ہے بلکہ وہ خوارجیوں کی ایک قسم ہیں ، جنہوں نے اسلامی خلافت کے خلاف پہلی بار بغاوت کرتے ہوئے مسلمانوں کو کافر قرا ردیا تھا اور ان کے قتل کی اجازت دی تھی ۔ شیعہ ممالک اور تنظیموں کی قیادت بھی یہی بات کہتی ہے لیکن وہ داعش کے خلاف فوجی اتحاد کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اکثریتی شیعہ آبادی والے ممالک کے علاوہ انڈونیشیا بھی اس اتحاد کا حصہ نہیں بنا ہے ، جہاں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے ۔ اسلامی تعاون کی تنظیم ( او آئی سی ) کے 57 رکن اسلامی ممالک میں سے 23 اسلامی ممالک اس فوجی اتحاد سے باہر ہیں ۔ مسلم دنیا کی یہ تقسیم خاص طور پر فرقہ وارانہ بنیادوں پرانتہائی خطرناک ہو گی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر توجہ دینے کی بجائے مسلم دنیا فروعی اور داخلی جنگوں میں الجھ رہی ہے ۔
ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کی ’’ پراکسی وار ‘‘ لڑ رہے ہیں اور عالمی طاقتیں ہمارے فروعی اختلافات کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں ۔ ہماری قیادت اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کیلئے ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے ۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے فرقہ وارانہ بنیادوں پر فوجی اتحاد بنانے کی بجائے وسیع تر اسلامی اتحاد ،معاشی ترقی اور مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مسلم دنیا کے اس بحران کو بہت پہلے سمجھ لیا تھا اور اس کا حل بھی تجویز کیا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب ’’ مفاہمت‘‘ میں اسلامی دنیا کی شاندار اور قابل فخر تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں نے علم اور دولت پیدا کی ، جس کی وجہ سے انہیں دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے کی قوت حاصل ہوئی ۔ مگر اب دنیا کے تقریباً آدھے مسلمان ناخواندہ ہیں ۔ او آئی سی کے تمام رکن ممالک کا مشترکہ جی ڈی پی صرف فرانس کے جی ڈی پی کے برابر ہے ۔ ہر سال ہسپانوی زبان میں جتنی کتابوں کا ترجمہ ہوتا ہے ، اتنی کتابوں کا گزشتہ 100 سال میں عربی میں ترجمہ نہیں ہوا ۔ یونان کے ننھے منے ڈیڑھ کروڑ شہری ہر سال جتنی کتابیں خریدتے ہیں ، اتنی دنیائے عرب کے سارے باشندے مل کر بھی نہیں خریدتے … مسلم ممالک میں خزانے بھرے پڑے ہیں لیکن تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک کی فی کس اوسط آمدنی اسرائیل کی فی کس اوسط آمدنی سے کئی گنا کم ہے …تمام اسلامی ممالک میں تقریباً 500 یونیورسٹیز ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں صرف امریکہ میں 5 ہزار اور انڈیا میں 8 ہزار یونیورسٹیز کام کر رہی ہیں ۔ کرہ ارض کی پہلی 500یونیورسٹیوں میںمسلم دنیا کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے … مسلم ممالک کو ایک بار پھر علم اور جدید تصورات کی شمعیں فروزاں کرنے کا ایجنڈا مرتب کرنا ہو گا ۔ مسلم ممالک کے پاس جو دولت ہے ، وہ تاریخ کا رخ بدلنے کی قوت رکھتی ہے ۔ اس کیلئے خلیجی ریاستوں کو دنیائے اسلام کی معاشی اور علمی ترقی کیلئے جمپ اسٹارٹ کرنا ہو گا ۔ ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو یا ان سے پہلے مسلم دنیا کو ایک طاقت بنانے کا جو وژن ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا مسلم دنیا میں اب ان جیسےvisionary لیڈرز کی کمی محسوس ہو رہی ہے جو دنیائے اسلام کے ساتھ ساتھ تمام عالمی قوتوں کو قابل قبول ہو۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ دنیا کروٹ لے رہی ہے ۔ جنگ و جدل اور دہشت گردی کی معیشت سے نکلنے کیلئے اسی طرح کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ، جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد حقیقی قومی اور معاشی آزادیوں کیلئے صف بندیاں ہوئی تھیں ۔ مسلم دنیا کیلئے بڑے امکانات ہیں ۔ اسے نئی صف بندیوں میں شامل ہونے ، نئے بلاکس بنانے اور پہلے کی طرح دنیا کی رہنمائی کرنے کا کردار ادا کرنے سے روکنے کیلئے الجھایا جا رہا ہے ۔ جس دہشت گردی ، فرقہ واریت اور خونریزی کی صورت حال سے آج مسلم دنیا دوچار ہے ۔ بالکل اسی طرح کی صورتحال سے تقریباً دو صدیاں قبل یورپ بھی دوچار تھا ۔ یورپ نے خونریز لڑائیوں سے یہ سبق سیکھا کہ انہوں نے مذہبی ، فرقہ ورانہ اور فروعی معاملات کو قومی نہیں بلکہ انفرادی مسئلہ قرار دیا اور ان
معاملات میں الجھنے کی بجائے اجتماعی ترقی پر توجہ دی ۔ مسلم دنیا کو بدلتی ہوئی دنیا میں بہترین موقع میسر آ رہے ہیں۔وہ ان مواقع سے فوری فائدہ اٹھائے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کو اجتماعی مفاد کیلئے عالمی طاقتوں کی پراکسی وار سے نکلنا چاہئے ۔ داعش کے خلاف اتنا بڑا فوجی اتحاد بنانے کی بجائے بہت نچلی سطح پر ان عوامل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ، جو داعش یا دیگر شدت پسند تنظیموں کو پنپنے کے حالات پیدا کر رہے ہیں ۔ داعش سے اس طرح نمٹنے کا طریقہ نہ صرف مسلم دنیا کو مزید داخلی اور فروعی تضادات میں الجھا دیگا بلکہ دہشت گردی کی اس معیشت کو بھی مضبوط کرے گا ، جس میں داعش جیسی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے اور قومی وسائل پر قوموں کا اختیار ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ فوجی اتحاد نہ صرف مسلمان ملکوں کو خانہ جنگی میں الجھا دے گا بلکہ مسلم معاشروں میں بھی پولرائزیشن اور تقسیم ہو گی ۔ اس سے مسلم ممالک کو بہت زیادہ نقصان ہو گا ۔ عالمی طاقتوں کے اس کھیل سے فوری طور پر نکل جانا چاہئے ۔
پاکستان کو 34ممالک کے اس فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان کے پڑوس میں ایران واقع ہے ، جو دوسرے کیمپ میں شامل ہے ۔ ایران خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور معاشی کایا پلٹ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان ایران سے کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان کے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان میں بھی حالات بہت خراب ہیں اور پاکستان کی بھارت کے ساتھ مشرقی سرحدو ں پر بھی کشیدگی ہے ۔ پاکستان کے اندر مختلف مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ پاکستان خوف ناک پولرائزیشن کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ویسے تو تمام اسلامی ممالک کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہئے لیکن پاکستان کو خاص طور پر اپنے معروضی حالات کے خلاف فیصلے نہیں کرنا چاہئیں ۔
تازہ ترین