• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تقریبا ڈیڑھ برس پہلے کا واقعہ ہے وزیر اعظم صاحب اپنی رہائش گاہ پر ٹیلی وژن نشریات دیکھ رہے تھے،خبروں کے دوران ایک رپورٹ نشر ہوئی جس میں گھر کے واحد کفیل ایک انتہائی غریب شخص کی داستان بیان کی جا رہی تھی جو جگر کے عارضے کے باعث موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا،ڈاکٹروں نے اس کی سانسیں چلنے کی ضمانت جگر کی تبدیلی کی صورت میں دی تھی لیکن جو ہیپاٹائٹس کی دوائی لینے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے موت کی دہلیز تک آن پہنچا تھا وہ زندگی کیسے خرید سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ قدرت کو جب کسی سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو اسے رہنمائی بھی عطاء کردی جاتی ہے، چنانچہ یہی وہ لمحہ تھا جب اس غریب،بے بس اورلاچار شخص کی فریاد نے انتظامی سربراہ حکومت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نوازکو یاد کیا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ پاکستان کے ایسے نادار افراد کیلئے پروگرام شروع کرنا چاہتے ہیں جو علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے، تاکہ لاکھوں،کروڑوں معصوم بچوں کو یتیم ہونے سے بچایا جا سکے۔ باپ کی طرح درد دل رکھنے والی بیٹی نے بھی اس کی تائیدکی اور وعدہ کیا کہ وہ ان کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں بھرپور کردار ادا کریں گی۔ پھر وقت ضائع کئے بغیر مریم نواز نے وفاقی سطح پر شعبہ صحت کی نظم و نسق کی انچارج وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ سے وزیر اعظم کی خواہش کے بارے میں تفصیلی مشاورت کی۔ ان وزیر مملکت کے بارے میں تو ویسے ہی مشہور ہے کہ وہ کچھ کرنے کی ٹھان لیں تواسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہیں۔انہوں نے مریم کے ہمراہ وزیر اعظم سے ملاقات کی اور انہیں آگاہ کیا کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت نے بھی غریبوں کے مفت علاج کے حوالے سے پروگرام شروع کر رکھے ہیں لیکن وہ صرف سیکنڈری کئیر تک محدود ہیں یعنی موذی امراض کا علاج نہیں کیا جا رہا اوران میں بیماری کے مکمل علاج کیلئے مالی مدد بھی شامل نہیں ہے۔وزیر اعظم کی ہدایات پر نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا ،اس دوران بھارت میں جاری اسی نوعیت کے پروگرام اور ان کے تجربے سے استفادہ کرنے کیلئے بھارتی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ پروگرام کو ملک بھر میں شروع کرنے کیلئے اس میں صوبائی حکومتوں کو شامل کیا جانا بھی ضروری تھا جبکہ سرکاری شعبے کے ساتھ نجی اسپتالوں کی خدمات کے حصول سے لے کر مستحق افراد کے تعین اور مختلف اداروں کی شراکت کے ضمن میں کئی انتظامی اور آئینی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ ملکی حالات کے باعث پروگرام کیلئے خطیر رقم کی فراہمی بذات خود ایک اہم چیلنج تھا تاہم ان تمام مشکلات کو دورکرنے کیلئے اٹھارہ مہینے عرق ریزی کی گئی اور بالآخر وزیر اعظم کی خواہش کو حقیقت کا رنگ دے دیا گیا۔اپنے خواب کی تکمیل پر وزیر اعظم کو جو دلی طمانیت ہوئی اس کا اظہار پاکستان کی تاریخ کے اس منفرد ہیلتھ انشورنس پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے ان کے چہرے سے بخوبی کیا جاسکتا تھا۔انہوں نے قوم کو نوید سنائی کہ اس پروگرام کے نفاذ کے بعد کسی غریب کو اپنے علاج کیلئے گھر کی چیزیں نہیں بیچنا پڑیں گی۔ نادار افراد اب علاج کی سہولت سے محروم نہیں رہیں گے اور ان کا علاج حکومت کی ذمہ داری ہے۔وزیر اعظم نے اس اقدام کو عبادت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بھی قرار دیا۔ بلاشبہ انسانیت کی خدمت میں ہی عظمت ہے اوراس پروگرام کے ذریعے وفاقی حکومت نے پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی کے نام پر سسکیاں لینے والی پچپن فیصد آبادی کو جینے کی نوید دے دی ہے جس پر اسے خراج تحسین پیش نہ کرنا بخل ہو گا۔ ویسے حکومت کے اپنے حلقوں میں بھی افسران سے سیاست دان تک شکر اداکر رہے ہیں کہ حکومت سڑکوں،پلوں،میٹرو بسوں اور ٹرینوں سے باہر آئی ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ مختلف بیماریوں کے شکار مریضوں کے اسلام آباد کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں داخلے سے پروگرام پر عمل درآمد کا باقاعدہ آغازبھی کر دیا گیا ہے۔ اس نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کی تفصیلات تو سامنے آ چکی ہیں لیکن اسی کالم میں اس پروگرام سے متعلق کچھ اہم حقائق بھی قارئین کو بتاتا ہوں کہ آخر سندھ اور خیبر پختونخوا نے اس میں شمولیت سے کیوں گریز کیا۔ پروگرام کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے 9 ارب 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ پروگرام میں شمولیت کیلئے سندھ حکومت کو 90 کروڑ اور خیبر پختون خوا حکومت کو صرف 10 کروڑ روپے ادا کرنا ہیں لیکن ابتدائی طور پر پروگرام میں شمولیت کی حامی بھرنے کے بعد آخری لمحات میں دونوں صوبائی حکومتوں نے انکار کردیا جس کی وجہ یہ معلوم ہوئی ہے کہ سندھ حکومت کا مطالبہ ہے کہ اس کے چار اضلاع کے ناموں میں سے بدین کو خارج کر دیا جائے جبکہ پرویز خٹک حکومت کا مطالبہ ہے کہ اس کے چار اضلاع وہی شامل کئے جائیں جن میں اس کا صوبائی صحت پروگرام جاری ہے۔وفاقی حکومت نے پروگرام میں ابتدائی طور پر ہر صوبے سے جن چار اضلاع کو شامل کیا وہ نام متعلقہ صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کئے گئے تھے،انہی کی بنیاد پر مستحق افراد کی رجسٹریشن سے اسپتالوں کے تعین تک تمام کوائف مکمل کئے گئے لیکن اب وہی کام صرف اس لئے از سر نو کرنے کو کہا جا رہا ہے کہ ذوالفقار مرزا کے علاقے کے غریبوں کو مفت علاج کی سہولت نہیں دینی جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی صوبے کے جاری پروگرام کے تحت ہی سہولت دی جائے تاکہ کریڈٹ صوبائی حکومت کو ہی ملے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو مستحقین کو جاری کئے جانے والے کارڈز پر چسپاں وزیر اعظم کی تصویر پر بھی اعتراض تھا جو اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت راضی ہو گئی تھی کہ وزیر اعظم کی تصویر کو تبدیل کر کے وفاق اور اس کی تمام اکائیوں کی مناسبت سے تصویر شائع کر دی جائے گی لیکن صوبائی حکومت نے’’ میںنہ مانوں ‘‘کی رٹ قائم رکھی۔یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ابتدائی طور پر پنجاب حکومت نے بھی پروگرام میں شامل ہونے سے معذرت کی تھی لیکن وزیراعظم کی ہدایات پر وفاق کے ساتھ مل کر نادار مریضوں کے علاج کرنے کی حامی بھرلی۔ سندھ اور خیبر پختونخوا حکومتوں کے شش و پنج کی وجہ سے نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ کوئی صوبہ کسی بھی مرحلے پر اس میں شامل ہونا چاہے تو وہ ہو سکتا ہے۔ اس پروگرام کیلئے اب تک 97 سرکاری اور نجی اسپتالوں کو پینل میں شامل کیا جا چکا ہے جبکہ جو اسپتال مستحق مریضوں کو بہترین سہولتیں فراہم کریں گے وفاقی حکومت کی طرف سے انہیں نئی مشینری،آلات اور عمارتوں کی اپ گریڈیشن کیلئے ایک کروڑ روپے مالیت تک آسان قرضہ بھی فراہم کیا جائے گا۔ غریب مریضوں کی عزت نفس کو تحفظ دینے کیلئے متعلقہ اسپتالوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ کارڈ رکھنے والے مریضوں سے ترجیحی بنیادوں پر سلوک کریں۔اس پروگرام کی مانیٹرنگ کیلئے نادرا سے سینٹرل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم بھی تیار کرایا جا رہا ہے جس کیلئے نادرا کو 67 کروڑروپے ادا کر دئیے گئے ہیں۔علاج کرانے والے مریض کو اسپتال میں داخلے پر وزیر اعظم کی آواز میں ریکارڈ شدہ ایک پیغام موصول ہو گا جبکہ اسپتال سے اخراج پر بھی اسے ایسا ہی پیغام موصول ہو گا جس میں وہ علاج کے معیار اور اسپتال کے عملے کے رویے کے بارے میں اپنی رائے بھی درج کرا سکے گا ،اس طرح متعلقہ حکام کی طرف سے کسی کوتاہی کی صورت میں مریض کی شکایت ازالہ سیکشن کو بھیج دی جائے گی۔اس نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ صوبائی حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے اس لئے سندھ اور خیبر پختونخوا حکومتیں سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلا تاخیر اس میں شامل ہوں تاکہ ملک بھر کے مستحقین اس پروگرام سے استفادہ کر سکیں۔
تازہ ترین