• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روح کا بوجھ ہلکا کرنے میں کوئی حرج نہیں، چلیں تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، ہلکا سا ریلیف تو ملے گا۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم گویا ایک عمودی چٹان کے کنارے پر کھڑے محض خوش قسمتی کے سہارے فی الحال گرنے سے بچے ہوئے ہیں لیکن خود کو گرنے سے محفوظ سمجھنے کا دکھاوا کر رہے ہیں۔ اس دوران اُن اہم شعبہ جات، جو تہذیبوں کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھتے ہیں، کی حالت صرف بری نہیں، بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی اور حیران کن پیش رفت کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے والی دنیا سے ہم بہت پیچھے ہیں، بس ایک کچھوے کی طرح رینگ رہے ہیں۔ تخلیقی تصورات کی مارکیٹ، جس پر متحرک معاشروں کی اجارہ داری ہے، میں ہم سب سے نچلے درجے پر ہیں۔ ہر گزرتا ہوا سال ان معاشروں کو آگے بڑھتے اور ہمیں ماضی کی دلدل میں مزید دھنستے دیکھتا ہے۔ اقوامِ متحدہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں دنیا کی اوسط ترقی سے بالترتیب پچاس اور ساٹھ سال پیچھے ہیں۔ پرائمری سطح پر ہمارے کم و بیش ساٹھ لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ تمام درجوں کو شمار کرتے ہوئے اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اس سے چار گنا زیادہ ہے۔ ناقص غذا یا غذائی قلت کی وجہ سے تقریباً 44 فیصد بچوں کی جسمانی نشوونما ادھوری رہتی ہے۔ اگرچہ یہ تخمینہ حقیقت سے کم ہے لیکن یہ تلخ حقائق کی تصویر دکھا دیتا ہے۔ سولہ ملین افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، نیز اس ملک میں فی کس پانی کی دستیابی کم ہوتی جارہی ہے۔
خوراک اور سیکورٹی کے حوالے سے ہمارا شمار انتہائی پسماندہ اقوام میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف بچے پیدا کرنے میں اس کرّہ ارض پر ہمارا مدمقابل دور، بلکہ بہت دور تک کوئی نہیں۔ ہم اپنے وسائل کے دشمن بن کر انہیں اجاڑ رہے ہیں۔ ایک طرف ہم دنیا میں سب سے زیادہ موبائل فون صارفین رکھنے والی اقوام میں سے ایک ہیں تو دوسری طرف ٹوائلٹ تک رسائی رکھنے والی اقوام کی فہرست میں ہم آخری دس نمبروں پر ہیں۔ ہمارے لئے واحد طمانیت کا باعث یہ کہ اس فہرست میں انڈیا ہم سے بھی پست درجے پر ہے۔ وہاں 1.3بلین افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ شہریوں کو پولیس کا تحفظ، مریضوں کی ڈاکٹروں تک رسائی، کیس کی عدالت میں شنوائی اور جی ڈی پی کی شرح سے ٹیکس کی وصولی کی شرح انتہائی شرمناک۔ ہم قدیم دور کے وائرس، جیسا کہ پولیو، جن سے دنیا نجات پا کر آگے بڑھ چکی، سے ابھی تک نبرد آزما ہونے کی کوشش میں ہیں۔ ہم دنیا کی وہ نابغہ قوم ہیں جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ اُن کے وطن میں رہنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔
جب ہمارے بزنس کے اہم ترین مرکز، کراچی میں ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ 48.7فیصد افراد ملک سے باہر جا کر اپنا مستقبل بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ انہیں موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ اُن کا تعلق اُس نسل سے ہے جس کا ہر فرد آنکھ کھولتے ہی ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہوتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آنے والے برسوں میں یہ قرض اُس قوم نے ادا کرنا ہے جس کا ہر تیسرا شخص خطِ غربت سے پست زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ، اور کچھ دیگر اعدادوشمار حوصلہ شکن اور مایوس کن ہی نہیں، لرزہ خیز بھی ہیں۔ قہر نازل ہو اُن پر جو ہمیں ان حقائق سے آشنا کرتے ہیں۔ اگرچہ حقائق ان سے بھی کہیں زیادہ گمبھیر ہیں لیکن ان کا کچھ پردہ رہ جاتا ہے کیونکہ شکستہ حال زندگی اور تباہ شدہ گھر سروے کے ریڈار سے دور رہتے ہیں۔
وطنِ عزیز کے کسی بھی شعبے کو لے لیں، فرض کریں ڈیری کو، تو اس کی ایسی روح فرسا تفصیل سامنے آئے گی کہ خدا کی پناہ۔ ابھی حال ہی میں پیک کئے ہوئے ’’مائع‘‘ (اُسے دودھ ہر گز نہیں کہا جاسکتا) کی حقیقت کا انکشاف ہوا ہے۔ آپ لٹنے والے لاکھوں شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرسکتے ہیں، غیر جانبدار، بالکل ایک گورکن کی سی بے حسی سے اُس کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی اخبار میں شائع ہونے والے کسی کالم کو دیکھیں، حق تلفی کی کہانیاں سنیں، کچلی ہوئی مظلوم انسانیت کی طرف دیکھیں، آپ کو پاکستان میں ہر طرف چیخ وپکار سنائی دے گی۔ اس کے باوجود ہم سب جانتے ہیں کہ صحافت ایسے معاملات کو خود ہی سنسر کرتے ہوئے کم رپورٹ پیش کرتی ہے۔ ننگے حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے ہر دوسرے گھر کو سفاک ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا، اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان عوام کی توجہ بٹانے کے لئے کچھ حربے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ معاشی راہداری کا منصوبہ، یا یہ کہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے، اور اس کے ساتھ کچھ جھوٹی امیدوں کی کھیتی کاشت کی جاتی ہے تاکہ عارضی سکون کا اہتمام کیا جا سکے۔ موجودہ سیاسی قیادت، جیسا کہ نواز شریف، بلاول بھٹو، عمران خان اور دیگر اسی کھیتی کے کاشت کار ہیں۔ آزادی کے وقت سے یہی ملمع کاری ہو رہی ہے، اور یہ رجحان صرف اس لئے تبدیل نہیں ہو جائے گا کہ گردشِ فلک نے ہمارے کلینڈر پر نئے سال کا ورق پلٹ دیا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارے مسائل ناقابل حل ہیں۔ کوئی قوم بھی ایسی شکستگی سے دوچار نہیں ہوتی جس کی مرمت نہ کی جاسکے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان چیلنجز کا ادراک تو کیا جائے، انہیں سر کرنے کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا۔ لیکن ہم نے یہ اہم قدم (درپیش چیلنجز کے ادراک کا) کبھی نہیں اٹھایا۔
حقائق سے نگاہیں چرانے کے باوجود کبھی کبھار اپنے شہریوں کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری کرنے پر ناکامی کے نتائج کی دستاویز بھی تیار کی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک دستاویز گزشتہ برس کے اختتامی ایام میں سامنے آئی۔ پبلک سروس کمیشن ایگزیمنر رپورٹ ملک میں انسانی ذرائع کے رونگٹے کھڑے کردینے والے زوال کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ دستاویز سول سروس پاکستان میں ملازمت کے امیدواروں کی کارکردگی کی افسوسناک جھلک ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آسان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے امیدواروں، جو پندرہ سالہ تعلیمی پسِ منظر رکھتے تھے، بھی ’’مربوط، منظم اور موضوع کے مطابق جواب دینے سے قاصر رہے۔ منتشر خیالی سے عبارت، اُن کے جواب استدلال سے بہت دور تھے۔ تخلیقی صلاحیتوں کی بے حد کمی تھی، حالانکہ مقابلے کے امتحان میں شریک امیدواروں سے اس کی توقع کی جاتی ہے۔‘‘ یہ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ۔۔۔ ’’تحریر کردہ مضامین گرامر اور ہجوں کی غلطیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ درحقیقت ایک بھی مضمون ایسا نہ تھا جسے غلطیوں سے پاک قرار دیا جائے‘‘۔
رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اکائونٹنگ کے مضمون میں امیدواروں کی کارکردگی اوسط سے بھی کم تھی اور امتحان میں شریک اکائونٹنگ کے بنیادی اصولوں اور کاروباری لین دین کے ضوابط سے نابلد تھے۔
ریاضی میں صرف سترہ امیدواروں نے چالیس فیصد نمبر حاصل کیے۔ جن اٹھاسی امیدواروں نے چالیس فیصد سے کم نمبر حاصل کیے ان میں پچپن کے نمبر صفر تھے۔ زیادہ سے زیادہ حاصل کردہ نمبر تہتر تھے۔ جغرافیہ، فزکس، کیمسٹری، بزنس ایڈمنسٹریشن، گورننس اینڈ پبلک پالیسی، ہسٹری آف پاکستان اینڈ انڈیا اور انٹرنیشنل لامیں امیدواروں کی کارکردگی انتہائی افسوسناک اور اوسط درجے سے کہیں کم تھی۔ بعض کیسز میں طلبہ نے جوابی کاپی کو سوالات لکھ لکھ کر ہی بھر دیا۔ رپورٹ کے مطابق، قانون کے پیپر میں ’’زیادہ تر طلبہ کو مضمون کا سرے سے ہی کچھ علم نہ تھا‘‘۔ امتحان میں صرف دوفیصد طلبہ ہی کامیاب ہوئے۔
سماجی محرکات کی نشاندہی کرنے والے عوامل کے پسِ منظر میں اس رپورٹ کے چند صفحات کا مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ اس ملک کا اوسط شہری ذہنی افلاس، محدود سوچ، مسخ شدہ تصورات کا شکار اور کچھ پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہے۔ وہ نظام جو چمکدار سڑکوں کی تعمیر اور علاقے کا تجارتی مرکز بننے اور اسٹاک مارکیٹ کی ترقی کی امید دلاتا ہے، وہ بدعنوانی سے لڑنے اورانسانی ذرائع کو ترقی دینے سے قاصر ہے۔ اس کے حکمرانوں کو اپنے شہریوں کو باعزت انسان بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک ان سنگلاخ حقائق کے کھونٹے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ کیا کوئی نظام اتنا بے رحم ہوسکتا ہے کہ جو اپنے ارکان کی توانائیوں کے سوتے خشک کرکے اُنہیں مستقبل سے محروم کردے؟ اُن کے خوابوں کو چکنا چور کردے اور ہر اُس امکان کو نیست و نابود کردے جو اُن کی مالی اور ذہنی خوشحالی کا باعث بن سکتا ہو؟ عوام کی اتنی بڑی اکثریت کو اس طرح نظر انداز کرنے کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔ یہ بوجھ جہاز کو غرق کرسکتا ہے۔ جب ہم اپنی روح میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں اس غرقابی کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے۔

.
تازہ ترین