• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چارسال قبل آج ہی کے روزپشاورمیں قاضی حسین احمد مرحوم کے جنازے میں شرکت کے لئے اسلام آباد سے پشاورآناہوا، رنگ روڈ پربے نظیراسپتال کے لئے مختص میدان میں جنازے میں ہرسوچ اورنظریے کے لوگ شریک تھے ان میں دوایسے مسالک یافرقوں کے لوگ بھی شریک تھے جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں مرحوم قاضی حسین احمد کی صدارت میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے سے انکارکردیا تھا میں نے ان میں سے کئی لوگوں سے الگ الگ پوچھا ان کا جنازہ تواکٹھے پڑھ سکتے ہیں لیکن ان کی صدارت میں اجلاس میں شرکت گوارہ نہیں تھی توجواب بڑا عامیانہ تھا کہ آج توہم اپنے اپنے مسلک کی نمائندگی کرنے آئے ہیں اورمرحوم توہمارے لئے فرقہ واریت کے خلاف روشنی کی واحد کرن تھے میں نے پھرپوچھا جب کرن ایک ہی تھی توپھراندھیروں میں رہنے کو کیوں ترجیح دی توجواب پھروہی تھا کہ ہمارااختلاف اصولی تھا کہ قاضی صاحب مرحوم ہمارے مخالف فرقے کو ہمارے ساتھ بٹھانے سے پہلے ہماری فلاں فلاں بات منوالیں۔ میں ان کے" اصولی اختلاف" کا جوازسن کراپنی راہ یعنی اسلام آبادچل دیا۔
ان مسلکوں کے لوگوں کے جواز اورمرحوم کے ساتھ ان کی جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد ہونے والی دوتین نشستوں کا احوال ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہیں کہ دل کرتا ہے فرقہ واریت کوپھیلانے والے ہرشخص پرقاضی حسین احمد کی طبعی موت کے باوجود بھی ان کے قتل کا مقدمہ درج کردوں مجھے بھی دیگرلوگوں کی طرح ان کے سیاسی طرزعمل اورپالیسیوں سے بہت اختلاف رہا تاہم ہماری فرقہ واریت سے نفرت کی بدولت وہ صرف اس کام میں ہمیشہ میرے ہیرورہے وہ بھی ملک میں ایک دوسرے کے خلاف لگنے والے کافرکافر کے نعروں سے اتنے ہی پریشان تھے جتنا میں تھا اس لئے جب بھی وقت ملتا اسلام آباد میں ان کے ادارہ فکروعمل میں ان سے ملنے چلا جاتاوہ بھی جماعت اسلامی سے فارغ ہوکراس نیک کام کوکرنے میں لگے ہوئے تھے ان کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کوئی کام کریں لیکن اس لعنت سے اپنی نفرت کی وجہ سے وہ مرتے دم تک اس کے خلاف کام میں لگے رہے۔فرقہ بازی کی جس حالت کو دیکھ کرہم دل میں کڑھتے رہتے تھے قومی سطح پر اس کے خلاف وہ واحد آوازتھے جنہوں نے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم کو ہمیشہ استعمال کیا اس پلیٹ فارم پرشیعہ بھی ہوتے تھے اورسنی بھی، دیوبندی بھی ہوتے تھے اوربریلوی بھی۔ یوں تودشمن کی خواہش اوراپنے اصولوں کی بدولت یہ سب مسلک یا فرقے ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں تاہم یہ قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت کا کرشمہ ہی تھا کہ وہ ان سب کو ایک چھت تلے نہ صرف بٹھا پاتے تھے بلکہ ان میں سے بعض ایک دوسرے پرکفر کے فتوے لگانے کے باوجود بھی ایک دوسرے کی اقتدا میں باجماعت نماز بھی پڑھ لیتے تھے۔ کسے یاد نہیں کہ دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کے ایک اجلاس کے دوران پشاورمیں جب پوری مذہبی قیادت کو ایک فرقے کے عالم کے پیچھے نمازپڑھتے دیکھا گیا توکس کس نے کیا کیا واویلا کیااورکیسے کیسے قاضی حسین احمد کو اس باجماعت نماز کا اہتمام کرنے پرتنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یاد نہیں آرہا کہ وہ افغانستان پرامریکہ اوراتحادیوں کے حملوں سے پہلے کا وقت تھا یا بعد کا، ایک دن ہم ان کی پریس کانفرنس کورکرنے پشاورمیں ان کی پلوسی میں واقع رہائش گاہ میں گئے جہاں پریس کانفرنس شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا کہ ان سے پوچھا گیا کہ اگرانہیں اختیارملے تووہ ایسے کیا کام کرینگے جس سے ان کے خیال کے مطابق کچھ فرق پڑے گا اورحالات بہترہوجائیں گے تو انہوں نے اپنی سب سے بڑی خواہش فرقہ واریت کے خاتمے کو قراردیا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ فرقہ واریت پر افسردہ اورمعاشرے پراس کے دوررس اثرات سے کافی پریشان بھی تھے۔
فرقہ واریت کے معاملے پران کی زبان سے ہربارایک ہی جملہ سنا جسے انہوں نے کبھی کسی دوسرے جملے سے نہ بدلا کہ دشمن مسلمانوں کو اگرکسی ہتھیار کے ذریعے کمزورکرسکتا ہے تووہ صرف فرقہ بازی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک معمولی سے اصول پرزندگی گزارنے سے ہم سب کی زندگیوں میں قرارآجائے گا کہ اپنے مسلک کو چھوڑونہیں اوردوسرے کے مسلک کو چھیڑونہیں۔
یہ فرقہ واریت سے ہماری ایک مشترکہ نفرت ہی تھی جومجھے بار بار ان کے پاس جانے پرمجبورکرتی رہی۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنی کوششوں سے کئی بارتمام فرقوں، مسلکوں اورمذہبی رہنمائوں کو اس بات پرراضی کیا کہ وہ ملی یکجہتی کونسل کوفعال کریں اوراس فعالیت کے بعد کونسل کے پلیٹ فارم سے تمام مسالک اورفرقوں کے علما کویکساں خطبہ جمعہ فراہم کیا جائے اورمسجد ومنبرکے ادارے کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں بلکہ ایسے مشترکات پرمتفق ہوجائیں جوسب کویکساں قبول ہوں لیکن پتہ نہیں پھر ایسا کیا ہوجاتا کہ ان کی یہ خواہش ادھوری رہ جاتی نہ صرف یہ بلکہ ان کا وہ ارمان بھی پورا نہ ہوسکا کہ مردراستوں میں پیشاب نہ کریں ۔
دوتین باران کا مختلف ٹی وی چینلز کے لئے انٹرویو بھی کیا وہاں پروہ لائیو کوریج کے وقت بھی بغیرکسی جھجک کے اپنی خواہش کے حوالے دیتے اوراس میں کوئی برائی نہ سمجھتے۔ چھوٹا منہ اوربڑی بات، اگرا ن کے ساتھ فرقہ واریت سے نفرت کی بنیاد پراپنی محبت کو ایک فقرے میں سمیٹنا چاہوں توغلط نہ ہوگا کہ قاضی حسین احمد اس میدان میں اتنے اعلیٰ معیارات سیٹ کرگئے ہیں کہ اورجماعتوں کوتوچھوڑیں خود جماعت اسلامی میں ان کا اپنا کوئی جانشین بھی ان معیارات کے حصول کا شاید سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی جب ملک میں فرقہ واریت کا نعرہ اٹھتا ہے ، کوئی اقدام ہوتا ہے یا حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان بناتی ہے توقاضی حسین احمد کا خیال ضرورآتا ہے کہ ان کے بعد کسی قومی یا صوبائی رہنما نے اس میدان میں ان کے نقش قدم پرچلنے کی کوشش ہی نہیں کی اوریوں قاضی حسین احمد کی جان لینے کے بعد بھی فرقہ واریت کا ناسورکھلے عام پھررہاہے۔مجھے یقین ہے کہ بلاشبہ وہ ملک میں فرقہ واریت اور مسلمانوں کی تقسیم کے خلاف اٹھنے والی واحد آواز تھے۔


.
تازہ ترین