• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سازش کا قبل از وقت علم رکھنا اور پھر اس کو غیر مئوثر کر ڈالنا اقتدار کے ایوانوں میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں اس حوالے سے کوتاہی سرزد ہوئی وہیں بوریہ بسترا گول ہو گیا۔ آمریت لمحوں میں قائم نہیں ہوتی ۔ یا اکا دکا واقعات اس کا سبب نہیں بنتے بلکہ تہہ در تہہ راز اس میں پنہاں ہوتے ہیں۔ لیکن عوام سے نپٹنے کے لئے کچھ عذر تراشنا بقا کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ 2014ء کا دھرنا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں مگر اس کا تذکرہ ذرا بعد میں ۔ انور قدوائی اور شفیق مرزا مرحومین سے میری شناسائی گزشتہ پندرہ برسو ں پر محیط تھی2013ء کے انتخابات سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنا جاری تھا تو ایک دن ان دونوں بزرگوار سے ملاقات ہوئی۔ حالات حاضرہ پر گفتگو شروع ہو گئی تو میں نے ان دونوں سے جو پاکستان کی سیاست کے انسائیکلوپیڈیا تھےدریافت کیا کہ کیا کسی غیر آئینی اقدام کی توقع آپ کر رہے ہیں۔ تو قدوائی صاحب بولے غیر آئینی اقدام بھر پور سازش سے وقوع پذیر ہوتا ہے ۔مگر اس کو درست ثابت کرنے کےلئے کئی عذر تراشنے پڑتے ہیں۔ مثلاً جنرل ضیاء کے فوجی اقدام کے تانے بانے کہیں اور سے بنے جا رہے تھے مگر آمریت قائم کرنے کے لئے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر قائم کیا جا رہا تھا کہ سیاسی حالات کی بے یقینی کی وجہ سے فوج کے اندر اضطراب بہت بڑھ رہا ہے ۔بھٹو صاحب کو بریفنگ دیتے ہوئے یہاں تک بتایا گیا کہ ماتحت عملہ حکم عدولی پر اتر آیا ہے۔ اور مثال یہ دی گئی کہ ملتان اور لاہور میں مظاہرین پر 25 گز کے فاصلے سے بالترتیب 42 اور 43 گولیا ں چلائی گئیں۔ جن میں ملتان اور لاہور میں صرف 2، 2 افراد کو گولی لگی۔ فوجی جوانوں کا نشانہ اتنا کچا نہیں ہوتا کہ وہ اتنے قریب سے نشانہ خطا کرے۔ مگر نشانہ خطا ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم عدولی کرتے ہوئے گولیاں فضا میں چلا رہے تھے۔ اور یہ فوج کے داخلی نظم کو تباہ ہوتے دیکھنے کے مترادف تھا۔ لہٰذاا من و امان اور فوج کے نظم کو بچانے کے نام پر جنرل ضیااقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئے اب انتخابات کی آمد آمد ہے۔ بھلا کیا عذر تراشا جائیگا۔ قدوائی صاحب کی یہ گفتگو دل پر نقش کر گئی۔
12اکتوبر 1999ء کو جب کوئی وجہ نہ بیان کی جا سکی تو طیارہ کے رخ موڑنے اور اس سے وابستہ عجیب و غریب افسانے پھیلائے گئے کہ آخر کچھ تو کہا جا سکے کہ ہم تو لا تعلق تھے مجبوراً کرنا پڑا۔2014ء کے دھرنے کے ہدایتکار یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جس شخصیت کو غیر آئینی اقدام کا سربراہ بننا ہے وہ اس پر آمادہ نہیں۔ اس لئے سازش کچھ تین حصوں میں تقسیم کی گئی تھی۔ دھرنے والوں کو یہ یقین دلا دیا گیا تھا کہ آپ دونوں صاحبان ایک ایک لاکھ افراد کا مجمع لے کر اسلام آباد میں آ جائیں باقی کام ہمارا ہے۔ قانونی درخواست پر 17 اگست تک فیصلہ لے لیا جائے گا اور پھر بس آپ ہی آپ ہونگے۔ اب قانونی درخواست پرجن کو فیصلہ کرنا تھا وہ اس فریم میں موجود تھے یا نہیں۔ اس کا علم کئے بنا اسلام آباد چڑھائی کا منصوبہ تیار کر لیا گیا۔ مگر ہوا یہ کہ مطلوبہ تعداد سے کہیں کم افراد اسلام آباد تک ان دونوں صاحبان کے ہمراہ موجود تھے۔ لہٰذا پلان کا پہلا حصہ زمیں بوس ہو گیا۔ پلا ن بی یہ تھا کہ جس کی تمام تفصیلات یقینا دھرنے کی اہم ترین شخصیت کے علم میں بھی نہ تھیں کہ اگر 2 لاکھ افراد اکٹھے نہ کئے جا سکے تو کسی وقت بھی ریاستی اداروں کے دفاتر پر قبضہ کر کے حکومت کو عملاً معطل کر دیا جائیگا اور اس میں سب سے خوفناک پروگرام یہ تھا کہ جو دھرنے کے اہم ترین شخص کے علم میں ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس دوران اس اہم ترین شخص کو لڑائی جھگڑے کے دوران دوسرے جہان روانہ کر دیا جائے۔ اور پلان کا تیسرا حصہ یہ تھا کہ ایوان وزیر اعظم پر حملہ کر دیا جائے اور اگر دھرنے کے اہم ترین صاحب لڑائی جھگڑے میں بچ گئے ہوں تو ا ن کو ایوان وزیر اعظم پر حملے کے دوران ضرور راہی ملک عدم کر دیا جائے۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ لاہور سے روانگی سے قبل ان صاحب نے اس نوعیت کی گفتگو کی تھی کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو نہ چھوڑنا۔ درحقیقت یہ بیان بھی ان سے دلوایا جا رہا تھا کہ ذہنوں میں یہ خیال پہلے سے ہی موجود ہو۔ اور جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے تو جن صاحب نے غیر آئینی اقدام نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے وہ بھی مجبور ہو جائیں گے کہ کر گزریں۔ حکومت کو انٹیلی جنس کے محکمے نے قبل از وقت اس خوفناک سازش سے آگاہ کر دیا تھا اور اس کو غیر مئوثر اور حکومت کا کسی بھی تشدد کےالزام کے بوجھ سے بچنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ پولیس کو مکمل طور پر غیر مسلح کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایس ایس پی اسلام آباد بھی تشدد سے زخمی کر دیئے گئے مگر پولیس کو غیر مسلح ہی رکھا گیا۔ دھرنے کی اہم ترین شخصیت کے گرد کچھ کرتا دھرتا اس سازش سے باخبر تھے ۔ اسی لئے جب وہ پارلیمنٹ کی طرف بڑھے توکچھ وقت کے لئے وہ اپنے ان "دوستوں" کی رفاقت سے محروم ہو چکے تھے۔ کیونکہ وہ رہنما اصل المیے کا انتظار کر رہے تھے۔ مگر پولیس کو غیر مسلح بلکہ غیر مئوثر کرنے کے حیران کن فیصلے اور پولیس سے ریاستی اداروں کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھا لینے سے بقیہ سازش بھی ناکام ہو گئی۔ کیونکہ اگر اب کچھ ہو بھی جاتا تو اس کا الزام حکومت کے سر نہیں تھوپا جا سکتا تھا۔ اور نہ ہی فیصلہ کن شخصیت کو کسی غیر آئینی اقدام پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ یہ مطالبہ سردست صرف مطالبہ ہی رہ سکتا ہے کہ اس سازش کی تحقیقات کروا کر عوام کے سامنے رکھی جائے۔ کیونکہ جمہوریت کو کسی اور سازش سے بچانا گزشتہ سازشوں کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے سے زیادہ اہم ہے۔


.
تازہ ترین