• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ سب نے اندرا گاندھی کا نام تو سن رکھا ہو گا۔ ہندومت سے تعلق رکھنے والوں میں اندرا نام کافی مقبول ہے۔ ہندو مت کی مقدس کتاب رگ ویدا میں سب سے زیادہ جس دیوتا، بادشاہ اور ہیرو کا ذکر ہوا ہے اس کا نام اندرا ہے۔ اندرا برصغیر کی تاریخ اور ہندو میتھالوجی کا اہم کردار ہے جو آریائی حملہ آوروں کا بادشاہ تھا۔ برصغیر پروسطی ایشیا سے ہونے والے آریائی حملوں کا آغاز بھی قدرتی طور پر پاکستان کے علاقوں سے شروع ہوا۔ اس زمانے میں پاکستان میں وادی سندھ کی تہذیب کا دور تھا۔ وادی سندھ کی تہذیب کو ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں جو چیچہ وطنی میں واقع ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ سے ماخوذ ہے۔ ہڑپہ کی تہذیب کے اولین آثار بلوچستان میں واقع مہر گڑھ کے 9000 سال پرانے آثارِ قدیمہ سے ملتے ہیں لیکن ہڑپہ تہذیب کے جس عرصے کو وادی سندھ کی تہذیب کے نام سے جانا جاتا ہے وہ ایک ترقی یافتہ شہری تہذیب تھی جسکا آغاز5300 سال پہلے ہوا اور جو بالآخر خانہ بدوش اور ’’غیر مہذب‘‘ آریائوں کے حملوں سے تقریبا 3300 سال قبل تباہ ہو گئی۔ اس تہذیب کے دور میں پاکستان اور بھارت میں بہت سے ترقی یافتہ شہر آباد تھے۔ پاکستان میں ہڑپہ اور موہن جو داڑو کے کاسموپولیٹن شہر بہت مشہور ہیں۔ ویسے تو آریائوں کے حملوں کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا لیکن رگ ویدا میں اندرا کا بڑے فخر سے بار بار ذکر آتا ہے جس نے ہڑپہ اور موہن جو داڑو سمیت وادی سندھ کی تہذیب کے شہروں کو تباہ کر دیا۔ رگ ویدا کے مطابق یہاں کے مقامی باشندوں (جو اغلب امکان کے مطابق دراوڑی تھے) نے آریائوں (جو اغلب امکان کے مطابق ہم لوگ تھے) کے حملوں کا خوب مقابلہ کیا اور اپنے شہروں کو تباہی سے بچائے رکھا لیکن پھر اندرا نے اس وقت کے جدید اور موثر نہری نظام پر حملہ کیا۔ کیسے؟ اندرا نے دریائے سندھ پر بنائے گئے ڈیم توڑ ڈالے جس سے وہ عظیم شہر سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے اور آج تک یہ شہر اس سیلابی مٹی کے نیچے دفن ہیں۔ اسی لئے رگ ویدا میں اندرا کو ’’ڈیموں کے توڑنے والے‘‘ جیسے فخریہ القاب سے یاد کیا جاتا ہے جس نے دریائے سندھ کے پانیوں کو ان ’’اژدھوں’’ سے آزاد کرایا جنہوں نے اسے قید کیا ہوا تھا۔یہ ساری رام کتھا سنانے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ تاریخ میں دریائوں کےڈیم توڑنے کی ایک بڑی مضبوط روایت موجود ہے اور ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے آثارِ قدیمہ آج بھی بند ٹوٹنے کی شہادت کے طور پر موجود ہیں۔ اور مودی جی کی مذہبی کتاب میں بند توڑنے کی روایت کا بڑے فخر سےاور بار بار ذکر بھی موجود ہے۔اب ایک دوسری تاریخی حقیقت کی طرف آتے ہیں۔ جب سکندر اعظم نے 2300 سال پہلے برصغیر پر حملوں کا آغاز کیا تو اسکی شروعات بھی پاکستان سے ہوئی۔ یونانی زبان میں اس وقت پنجاب کیلئے Pentapotamia کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ جسکا لفظی ترجمہ دریائوں کی زمین ہے۔ سترھویں صدی عیسوی میں فارسی زبان کے الفاظ ’’پنج‘‘ اور ’’آب‘‘ کو ملا کر اسکا موجودہ نام پنجاب پڑا، یعنی پانچ دریائوں کی سرزمین اور وہ پانچ دریا کونسے تھے؟ ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ستلج، راوی اور بیاس تو ہزاروں سالوں سے ہمارے نام میں شامل ہیں۔ ہمارے حکمران طبقوں کی تاریخی کرپشن اور نااہلی نے ہمیں ’’پرایا‘‘ ریاست اور بھارتی حکمران طبقے کی تاریخی محنت اور اخلاص نے بھارت کو سپر پاور کلب میں شامل کرا دیا ہے۔ اس لئے دوسروں کو کوسنے سے پہلے ہمیں اپنے نا قابلِ اصلاح حکمران طبقے کا نوحہ پڑھنا چاہئے۔ جب ہم یہ نوحہ پڑھ چکیں تو پھر دیکھیں کہ مودی جی طاقت کے نشے میں کہتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کردیں گے۔ انکا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہزاروں سالوں سے ہماری مٹی میں بہنے والے تین دریا جو وہ سندھ طاس معاہدے کے ذریعے ڈیم بنا کر چھین چکے، وہ ہمیں واپس کرنے جارہے ہیں بلکہ انکا یہ مطلب ہے کہ وہ ہمارے باقی تین دریائوں یعنی سندھ، چناب اور جہلم پر بھی ڈیم بنا کر ہمیں صحرا میں تبدیل کر دیں گے۔ یہ خالی خولی دھمکی نہیں ہے بلکہ وہ اس ضمن میں اعلیٰ سطحی میٹنگز کر چکے ہیں اور عملی اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ معاملہ اس حد تک بڑھ چکا کہ اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان، بھارت اور ورلڈ بنک کے ذمہ داران میں اس بات پر خط و کتابت جاری ہے اور چند روز پہلے سندھ طاس معاہدے کی بازگشت امریکی وزارتِ خارجہ کی پریس بریفنگ میں بھی سنی گئی۔
مودی کا دورحکومت انتہا پسندی اور جارحیت کے دور کے طور پر جانا جائے گا۔ مودی اور نواز شریف کی امن کوششوں کو کس احمقانہ طریقے سے سبوتاژ کیا گیا، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن جس طرح مودی نے کشمیر میں بربریت کی انتہا کر دی اور اب سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں، معاملات نہایت کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کو جتنا نقصان فوجی ڈکٹیٹروں نے پہنچایا، سب کے سامنے ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی صورت پہلے غاصب ایوب خان نے ہمارے تین دریا بھارت کو ہار دیئے۔ اب اگر مودی سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرتے ہیں تو پاکستان کا ہارے ہوئے اپنے تین دریائوں پر دوبارہ قانونی حق قائم ہو جائیگا اور ایک دفعہ یہ قانونی حق قائم ہو گیا تو پاکستان بھارت سے صرف کشمیر نہیں مانگے گا بلکہ اپنے تین دریا بھی مانگے گا۔ مودی جی کی اپنی مقدس کتاب رگ ویدا گواہ ہے کہ اگر ڈیم بن سکتے ہیں تو ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔ وہ سپر پاور بننے کے خواب میں چور ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ زمینیں صرف خشک سالی سے ہی صحرا نہیں بنتیں بلکہ (میرے منہ میں خاک) ایٹمی تابکاری سے بھی بنتی ہیں۔ خشک سالی کے صحرا تو ڈیم ٹوٹنے سے ہرے ہو جاتے ہیں لیکن ایٹمی تابکاری کے صحرا صدیوں تک بنجر رہتے ہیں۔


.
تازہ ترین