• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمال مہربانی فرمائی ہے ہمارے خادم اعلیٰ نے کہ لاہور شہر کو اور خوبصورت بنانے کے لئے جنوبی پنجاب کی ترقیاتی اسکیموں سے 2ارب روپے نکال کر لاہور پر لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ روپے جنوبی پنجاب کی 163 ترقیاتی اسکیموں کے لئے رکھے گئے تھے۔ یہ فنڈز نکال کر نہر کے کنارے سڑک کو اور چوڑا کیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کی جن اسکیموں کے لئے مختص رقم میں سے پیسے نکالے گئے ہیں ان سے اسکول، اسپتال اور سیوریج کی بہتری ہونی تھی۔ جس کینال روڈ پر پیسے لگائے جاتے رہے ہیں اس کے کنارے ڈاکٹرز اسپتال بھی واقع ہے۔ کینال سے لیکر ٹھوکر نیاز بیگ تک سڑک کو چوڑا کیا جائے گا۔ پھر مال روڈ تا ہربنس پورہ تک سڑک چوڑی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ اس تمام سے لاہور میں ٹریفک کے نظام میں بہتری آئے گی۔ واہ۔ داد دینی چاہئے پنجاب حکومت کو کہ انہیں لاہور کے لوگوں کے لئے اتنا کچھ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اصل میں انسان تو بستے ہی صرف لاہور میں ہیں باقی رہا جنوبی پنجاب کا حال تو وہاں کے لوگ کو جس حال میں ہیں اسی حال میں چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ وہ لوگ تو انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں۔ پتا نہیں کس نے اس سے پہلے ان کے لئے ایسی ترقیاتی اسکیموں کا سوچا جس سے وہاں اسکول بنیں یا اسپتال بنیں۔ ان لوگوں کو بہتر تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے اور پھر اگر بیمار ہوتے ہیں تو ان کے علاج کے لئے حکیم اور ہومیوپیتھک ہی بہت ہیں اور پھر ان کو بیمار ہونے کا حق ہی کیا ہے؟ اگر بیمار ہوتے ہیں تو ان کی اپنی غلطی ہے۔ اگر یہ لوگ تعلیم سے دور ہیں تو یہ بھی ان کی اپنی غلطی ہے۔ ان کے لئے جو مذہبی اسکولوں اور مدرسوں کا جال بچھایا گیا ہے کیا وہ کافی نہیںہے؟
بہت عرصہ قبل ہیسپر اینڈرسن اور مارک میڈاف نے ایک اسکرپٹ لکھا تھا Children of a lessen god کچھ ایسی ہی صورتحال جنوبی پنجاب کے رہنے والے ان لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ اگر اپنے علاقے میں ہونے والی ناانصافیوں پر آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو غدار ملک قرار دےدینا چاہئے۔ انہیں پنجاب حکومت کے اس فیصلے پر کہ 163ترقیاتی اسکیموں کی رقم لاہور پر خرچ کی جارہی ہے کے لئے خادم اعلیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے ۔ انہوں نے ان کے درجات کی بلندی کے لئے ان کے لئے مدرسوں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ایسا ہی شکر انہیں حکیموں اور پھونک مار کر مرض ٹھیک کردینے والوں کے وسیع جال کو اور پھیلنے دینے کے لئے بھی کرنا چاہئے۔
اب ذرا ہم اس لاہور کے بارے میں بھی غور کرلیں جس میں کبھی تو خادم اعلیٰ میٹرو بس چلاتے ہیں، کبھی اورنج ٹرین کے منصوبے بناتے ہیں اور ان کے لئے کبھی تو لاہور میں دیگر ترقیاتی اسکیموں سے پیسے نکالتے ہیں اور کبھی دوسرے علاقوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ لاہور شہر غلاظت اور پالوشن کے حوالے سے اب دنیا کے بدترین شہروں میںشمار کیا جانے لگا ہے، لاہور میں رہنے والے جانتے ہیں کہ نومبر کے آخری دنوں اور دسمبر کے شروع میں شہر میں جو اسموگ نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے وہ صرف اور صرف ایسی بدنظمی کی وجہ سے ہے جس سے شہر میں دن بدن پالوشن اور غلاظت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاہور کے شہریوں کو اب سانس لینے کے لئے شاید کسی اور ملک جانا پڑے گا یا پھر کئی دوسرے پیلوٹڈ شہروں کی طرح تازہ آکسیجن کے سلنڈر باہر سے منگوانے پڑیں گے۔ یہ شہر جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا اور اس کے دریا راوی کے کنارے تازہ پانی اور اس سے سیراب ہونے والے باغوں اور کھیتوں کی بہتات تھی اب اس راوی کا نام مردہ دریا ہے جہاں صرف اور صرف موت اگتی ہے، اس کے پانی سے سیراب ہونے والے پھل اور سبزیاں زہر سے بھرے ہیں لیکن خادم اعلیٰ کو اس کی کیا پروا۔ وہ تو شاید نہانے کے لئے بھی کسی منرل واٹر کمپنی کے بنے ہوئے پانی پر بھروسا کرتے ہوں گے۔ایک نظر ذرا اس شہر کے امن و امان کی طرف بھی ڈال لیتے ہیں۔ کہنے کو تو اس شہر میں کئی طرح کی پولیس فورس بنانے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کردیئے گئے ہیں لیکن 2015کی نسبت 2016 میں کرائم ریٹ میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2015 میں اس شہر میں 392 افراد قتل ہوئے جبکہ 2016میں ان کی تعداد 440ہے۔ 2015 میں 3594ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں جبکہ 2016 میں ان کی تعداد 4507 ہے۔ 2015 میں اغوا کے واقعات 699تھے جبکہ 2016 میں ان کی تعداد بڑھ کر 1054 ہوگئی۔
اس مختصرجائزہ سے آپ جناب خادم اعلیٰ کے لاہور کو خوبصورت بنانے کے منصوبوں اور لاہور کے لوگوں کے ہر لحاظ سے غیر محفوظ ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں اور یہ سب اس قیمت پر کہ انہوں نے دوسرے علاقوں خاص طور پر جنوبی پنجاب کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ کہانی ناانصافی، بدعنوانی بلکہ ڈکیتی کی کہانی ہے جہاں ایک بڑے علاقے کے لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر لاہور کے لوگوں کے لئے ایسے منصوبوں کا انتخاب کیا گیا ہے جس سے شاید ان کے اپنے گزرنے کے راستے تو بہتر ہو جائیں لیکن نہ تو لاہور کے لوگوں کے حال میں بہتری آئے اور نہ ہی جنوبی پنجاب کے لوگوں کو کوئی سہولت ملے۔
اپنی تازہ کتاب Lahore in the time of the Raj میں Ian Talbot اور پروفیسر طاہر کامران جس لاہور کی تصویر کشی کرتے ہیں وہ خوبصورت لاہور ہے جس کے باغات مہکتے ہیں جس کا راوی تازہ پانی فراہم کرتا ہے اور جس میں اہل علم کے لئے اعلیٰ ترین سہولتبں ہیں۔ لاہور مغل دور میں بھی خوبصورت رہا اور برٹش راج دور میں بھی۔ اس کے تاریخی ورثے کو خطرہ صرف اور صرف سکھوں کے دور میں رہا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اب خادم اعلیٰ کے دور میں ہے۔




.
تازہ ترین