• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک بہت پیارے دوست کا کہنا ہے کہ تم نے بدلحاظی کو ’’پروفیشنل ازم ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔جن لوگوں سے تمہارا کئی کئی سال پرانا تعلق واسطہ ہوتا ہے ان پر اپنے کالم یا ٹی وی پروگرام میں طنزوتنقید کے تیر برسا کر اپنی نام نہاد ’’پروفیشنل ازم ‘‘ کے پیچھے چھپ جاتے ہو۔ میں اپنے بھائیوں جیسے دوست کی یہ بات سن کر ہنس دیا لیکن کوئی وضاحت پیش نہیں کی کیونکہ میرے پیارے دوست کے شکوے میں تشویش سے بھرا خلوص چھپا ہوا تھا۔اس کا خیال تھا کہ میں اپنے قلم اور زبان سے بہت سے پرانے دوستوں کو ناراض کر دیتا ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ہر پیشے کے اپنے اپنے تقاضے اور اخلاقی اصول ہوتے ہیں۔ایک صحافی خبر کے معاملے میں غیر جانبدار رہ سکتا ہے لیکن کالم یا اداریے میں ایک رائے قائم کرتے ہوئے غیر جانبداری نہیں دکھا سکتا۔اسے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوتا ہے بصورت دیگر اسے صحافی نہیں ضمیر فروش کہا جاتا ہے اور تاریخ اسے مفاد پرست کے نام سے یاد کرتی ہے۔ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ صحافی کی اصل کمٹمنٹ اس کے قلم سے ہوتی ہے اور قلم کی حرمت کو ماں بہن کی عزت کی طرح محفوظ رکھنا چاہئے۔آج کل ہمیں قلم کی حرمت کے تقاضے جگہ جگہ پامال ہوتے نظر آتے ہیں۔خود ہم بھی سوفیصد سچائی لکھنے کے دعویدار نہیں لیکن بعض اوقات ہمیں بھی ایسی شخصیات کی غلطیوں کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے جنہیں کبھی ہمارے زبان و قلم نے ہیرو بنا کر پیش کیا تھا۔آج کے زمانے میں ہم جو بھی لکھتے اور کہتے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ہم اس دنیا سے چلے جائیں گے لیکن ہماری تاریخ زندہ رہے گی اور شاید تاریخ کا یہ خوف ہمیں کبھی کبھی قلم کی حرمت یاد دلاتا رہتا ہے۔قلم کی حرمت کے تقاضے ہمیں دل پر جبر کرکے ایسے ایسے لوگوں پر تنقید کے تیر چلانے پر مجبور کر دیتے ہیں جو ہمیں اپنا دوست سمجھ رہے ہوتے ہیں یا جنہیں کسی وقت ہم نے خود ہیرو بنایا ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں اسکی ایک مثال سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں۔مارچ 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کے سامنے انکے ایک انکار نے انہیں میڈیا اور سول سوسائٹی کا ہیرو بنا دیا لیکن جب انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور صدارتی نظام کے حامی بن کر سامنے آئے تو ہم ان پر شدید تنقید کرنے لگے اور پھر آصف علی زرداری نے ہماری تنقید پر قہقہے لگا کر ہمارا مذاق اڑایا کیونکہ جب وہ صدر تھے تو یہ ناچیز انکے سامنے مکے لہرا کر افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے دلائل دیا کرتا تھا۔ہیرو سے زیرو کی طرف سفر کرنے والوں میں تازہ مثال سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ہے۔کچھ دن پہلے تک راحیل شریف زندہ باد کے نعرے لگانے والے کافی تعداد میں موجود تھے لیکن جب سے پتہ چلا ہے کہ وہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم کی گئی ایک اتحادی فوج کے کمانڈر انچیف بن گئے ہیں تو میڈیا پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ہر پیشے کےکچھ اپنے تقاضے اور اصول ہوتے ہیں۔ ایک آرمی چیف عام طور پر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دوسال تک اندرون ملک یا بیرون ملک کوئی ملازمت نہیں کرتا۔اگر 39ممالک کی فوج کی سربراہی جیسا اہم معاملہ ہو تو پھر جنرل راحیل شریف جیسے ذمہ دار انسان کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی حکومت سے باقاعدہ صلاح مشورہ کرتے۔آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ انہیںسعودی عرب کی سربراہی میں قائم کی گئی اتحادی فوج کا کمانڈر انچیف بنانے کے بارے میں ابھی تک حکومت پاکستان کو سرکاری طورپر کچھ نہیں بتایا گیا اور نہ ہی حکومت پاکستان سے کوئی منظوری لی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جناب راحیل شریف نے انفرادی حیثیت میں کوئی فیصلہ کر لیا ہے حالانکہ جس اہم عہدے کے حوالے سے خبریں گرم ہیں اس عہدے کیلئے راحیل شریف کی بحیثیت فرد کوئی اہمیت نہیں، اصل اہمیت پاکستانی فوج کی ہے جس کے اجتماعی کردار نے راحیل شریف کو عزت بخشی۔ راحیل شریف نومبر 2013ء میں آرمی چیف بنے اور صرف تین ماہ کے بعد فروری 2014ء میں انہیں سعودی عرب کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’آرڈر آف عبدالعزیز السعود‘‘ دیدیا گیا۔یہ ایوارڈ ایک برادر اسلامی ملک کی طرف سے راحیل شریف کو نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے سربراہ کو دیا گیا تھا۔قبل ازیں یہ ایوارڈ پرویز مشرف، جارج بش، اوباما اور ڈیوڈ کیمرون کو بھی دیا جا چکا ہے اور حال ہی میں نریندر مودی کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا۔یہ ایوارڈ وصول کرنے والے راحیل شریف سعودی اتحادی فوج کے سربراہ بن کر پاکستانی فوج کے عملی تعاون کے محتاج ہونگے۔ وہ بھول گئے کہ 2015ء میں جب وہ خود آرمی چیف تھے تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان یمن کے بحران میں غیرجانبدار رہے گا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں طے کیاگیا کہ پاکستان یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہ کر قیام امن کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرے گا لیکن اگر سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی یا حرمین شریفین کو خطرہ ہوا تو پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت کی جائے گی۔پارلیمنٹ کی یہ قرارداد ریاست پاکستان کا موقف تھا۔ راحیل شریف کی طرف سے سعودی اتحادی فوج کی سربراہی کا فیصلہ اس قرارداد کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا ’’پروفیشنل ازم ‘‘ کا تقاضا تھا کہ کم از کم وہ اپنی حکومت اور ادارے سے تو پوچھ لیتے۔بہرحال سعودی عرب ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ اس معاملے میںراحیل شریف فہم وفراست سے کام لیتے تو زیادہ بہتر تھا۔حکومت پاکستان ہر وقت سعودی عرب کی سلامتی کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کیلئے تیار ہے لیکن اس کا قدم پارلیمنٹ کی قرارداد میں طے کردہ دائرے سے باہر نکل گیا تو معاملات بگڑ سکتے ہیں اور تاریخ نواز شریف کو معاف نہیں کریگی۔
کچھ کرم فرمائوں کا خیال ہے کہ ہمارے دوست جاوید ہاشمی بھی ہیرو سے زیرو بننے کے راستے پر گامزن ہیں۔میں نے بھی اپنے پچھلے کالم میں اس تاثر کا ذکر کیا تھا کہ جوڈیشل مارشل لاء کی بات کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں واپس آنا چاہتے ہیں۔اگر انکی نئی کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ پڑھ لی جائے تو اس تاثر کی نفی ہو جاتی ہے۔جاوید ہاشمی کے حالیہ بیان کی ٹائمنگ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ’’زندہ تاریخ ‘‘ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں واپسی کے زیادہ متمنی نہیں۔ یہ کتاب دراصل جیل کی ڈائری ہے اور ایک جگہ جاوید ہاشمی نے اپنے ایک ملاقاتی احسان پاشا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک دن لندن میں شہباز شریف نے نواز شریف کی موجودگی میں شیخ قیصر محمود کو ڈانٹا کہ آپ جیل میں جاوید ہاشمی کی مدد کرکے ہمارے مقابلے پر لیڈر تیار کر رہے ہیں۔ پھر شیخ قیصر محمود نے جاوید ہاشمی کی مدد بند کر دی تو انہیں مسلم لیگ (ن) اوورسیز کا سربراہ بنا دیا گیا۔ جب ان کے بعد امتیاز الدین ڈار نے جیل میں جاوید ہاشمی کی مدد شروع کی تو ان کا پارٹی میں رہنا مشکل کر دیاگیا۔ 2006ء کی یہ ’’زندہ تاریخ ‘‘ 2016ء میں شائع کرنے والا جاوید ہاشمی ایک لق ودق صحرا کا مسافر ہے جسے نہ سایہ چاہئے، نہ کوئی ہم سفر نہ کوئی کارواں اس لئے اسے یوسف بے کارواں نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ایک دیوانہ اور جنونی ہے جو ہماری سیاست کے اندرونی تضادات سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔دیوانوں اور جنونیوں کو ستائش کی نہیں ٹھوکروں اور گالیوں کی طلب ہوتی ہے ان کے مقام کا فیصلہ ان کے اپنے دور کی تاریخ نہیں بلکہ آنے والی تاریخ کرتی ہے۔

.
تازہ ترین