• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا پر اظہار خیال کے حوالے سے پہچانے جانے والے کم از کم چار افراد کا ایک ہفتے میں پراسرار طور پر اغواء کرلیا جانا، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے لئے بلاشبہ ایک کھلا چیلنج ہے۔ اب تک منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق ان میں سے وقاص گورایہ اور عاصم سعید بدھ کے روز لاہور میں جبکہ پروفیسر سلمان حیدر اور احمد رضا نصیربالترتیب جمعے اور ہفتے کو اسلام آباد اور شیخوپورہ میں لاپتہ ہوئے۔وفاقی وزارت داخلہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پروفیسر سلمان حیدر کے لاپتہ ہونے کی تحقیقات کرائے گی جو بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کے لئے سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنے کے تعلق سے معروف ہیں، لیکن باقی تین افراد کے معاملے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو گزشتہ روز تک نہ تو کہیں سے تاوان کا کوئی مطالبہ موصول ہوا نہ کسی ایجنسی کی جانب سے ان کے گھروالوں کے پاس ایسی کوئی اطلاع آئی جس سے پتہ چلتا کہ انہیں کسی معاملے میں تفتیش کے لئے حراست میں لیا گیا ہے۔یہ صورت حال نہ صرف ان افراد کے اہل خانہ کے لئے شدید اذیت ناک ہے بلکہ پوری قوم میں عدم تحفظ کا احساس بڑھانے کا باعث ہے۔ لاپتہ ہونے والے ان چاروں افراد میں سوشل میڈیا پر بعض حساس موضوعات پر آزادانہ اظہار رائے کی قدر مشترک سے ان کی گمشدگی کے پس پردہ ہاتھوں کے بارے میں کچھ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم ان کے لاپتہ ہونے کی وجہ کچھ بھی ہو، ان کی جلد از جلد بازیابی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ لوگ کسی جرائم پیشہ گروہ کے قبضے میں نہیں بلکہ کسی معاملے میں تفتیش کی خاطر حراست میں لئے گئے ہیں تو ان کا فوری طور پر ان کے اہل خانہ سے رابطہ کرایا جانا چاہیے اور کسی جرم میں ملوث پائے جانے کی صورت میں انہیں کم سے کم وقت میں قانون کی عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے ورنہ ان کی فوری رہائی عمل میں آنی چاہیے، اس کے برعکس طرز عمل آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کو حاصل بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

.
تازہ ترین