• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے 2016کو دہشت گردی کےخلاف فیصلہ کن اور آخری سال قرار دیا تھا، تاہم بھرپور اور موثر ایکشن کےباوجود دہشت گردی تو مکمل طور پرختم نہ ہوئی البتہ دہشت گردوں کو پھانسی دینے والی خصوصی عدالتیں ختم ہوگئیں، 16دسمبر 2014کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے بدترین اندوہناک واقعہ کے بعد سیاسی قیادت کےجذباتی فیصلے کانتیجہ بھی محض چند دہشت گردوں کو سزائے موت کے سوا کچھ نہ نکلا، دورِ راحیل کیا گزرا حکومت کا 20نکاتی متفقہ نیشنل ایکشن پلان بھی ’’ہوا‘‘ ہو چکا، دہشت گردی کےخاتمے کے عزم مصمم کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہےکہ انسداد دہشت گردی عدالتوں کو محفوظ بنانے، ججز اور گواہوں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے سمیت دیگر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا؟ عدالتوں اور ججوں کی تعداد بڑھائی گئی نہ قوانین میں ضروری ترامیم کی گئیں؟ تفتیشی عمل کو تیز تر اور ثبوتوں کے ٹھوس بنانے کے اقدامات نہیں کئے گئے؟ جواب وزارت قانون کے پاس ہے نہ ہی وزارت داخلہ کےپاس، عدم دلچسپی اور توجہ کے یہ حالات انتہائی سنگین صورت حال کی عکاسی کر رہے ہیں، ماہرین کی نظر میں اس کا بھیانک انجام قوم کے لئے نئی مصیبت سے کم نہیں ہو گا جب ’’ٹوٹی ہوئی کمر‘‘ کے ساتھ یہی دہشت گرد دوبارہ منظم ہو جائیں اور ہم پھرسے بے رحم حالات کا شکار ہو جائیں؟
قارئین حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کی بحالی کو آئندہ سال ایک دہائی ہونے کو ہے، لیکن آئین کےتحت مضبوط و مستحکم نظام اور اداراجاتی پالیسیاں بنانے کی بجائے تمام نظم ونسق کا بدستور انحصار محض شخصیات پر ہے اور سب کچھ ’’ون مین شو‘‘ کے اردگرد گھوم رہا ہے، قوم کی بدقسمتی کا حال دیکھیں کہ ایک ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے امریکی حمایت پر نہ صرف اقتدار پر ایک دہائی سے زائد قبضہ رکھا۔2008ء میں جمہوریت بحالی کے بعد زرداری حکومت سے جو نظریاتی طور پر سوشلسٹ نعرے سمیت ترقی و روشن خیالی کے ایجنڈے کا پرچار کرتی ہے، سے بھی عوام نے بہت توقعات باندھیں، لیکن نظام زر۔داری ہی رہا،5 سال میں عوام کو تحفظ ملا نہ ترقی ہوئی تاہم کنفیوژن برقرار رہی اس کی ایک وجہ ن لیگ کے مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ قریبی مراسم کے باعث اسکا دائیں بازو کی جماعت ہونے کا تاثر بھی ہے اور ہو بھی کیوں نہ اس جماعت کی آبیاری بھی تو ضیاءالحق کے اسٹیبلشمنٹ کےگملے میں ہوئی جو ان کے لئے آج تک وہی بازو انتخابات میں موثر و معاون ہے، ایک مرتبہ پھر جمہوری دور میں ایک ہی نام یا خاندان اقتدار کا مالک اور ملک کا بادشاہ ہے باقی رعایا ہاتھ باندھ کر مدد کی بدستور منتظر ہے، نظام کی بربادی میں محض حکمران ہی نہیں سب ہی حصہ دار ہے، اگر توہین عدالت نہ ہو تو عرض کروں کہ عدالتی نظام کی کمزوریوں نے پورے ملک کے سسٹم کو کمزور اور بےدست وپا کر دیا ہے، تاثر عام ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف کی بجائے سٹے آڈرز دیتی ہیں، اگر پولیس کبھی کمال کر کے اصلی ملزم پکڑ بھی لے تو ناکافی ثبوتوں اور غیرتسلی بخش تفتیش آڑے آتی ہے، غور کیا جائے تو ہمارے اداراجاتی نظام میں جو شخص زیادہ اور لامحدود اختیارات رکھتاہے وہ ’’جج‘‘ ہی ہے پورے نظام میں جج کی شخیصات ہی سب کچھ ہوتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عدالت کام نہ کر رہی ہوں تو ریاست کے باقی ادارے صرف کام ہی نہیں کرتے بلکہ عملاً مفلوج اور عوام مفلوک الحال ہو جاتے ہیں۔
چند دن پہلے دوران سفر ایک بزلہ سنج نے کیا خوب واقعہ سنایا کہ مریض ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، ڈاکٹر مرض کی تشخیص نہ کر سکا اور کنفیوژ ہو جاتا ہے، پھر کمال مہارت سے مریض کو نفسیاتی طور پر مطمئین کرنے کے لئے میٹھے سفید پاوڈر کو بطور ’’دوا‘‘ پڑیا بنا کر دے دیتا ہے، مرض ختم ہو یا نہ ہو ڈاکٹر کی بلا سے، مقصد تھا مریض کو مطمئن کرنا، گویا Fictitiousدوا سے کام چلانے کا کام ہمارے ہاں بھی شد ومد سے جاری ہے، ہمارے سیاستدان، ریاستی ادارے بشمول عدالتی نظام بھی عوام کے مسائل کےحقیقی حل یا ان کا مدوا کرنے کے ٹھوس اقدامات کی بجائے پاوڈر نما دوائی سے انہیں نفسیاتی طور پر مطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ نقاد کہتے ہیں کہ جس ملک میں قیام پاکستان سے پہلے گورا صاحب کرسمس کے موقع پر ایک دو ہفتے کی چھٹیاں گزارنے اپنے وطن چلے جاتے تھے اسی طرح جب گرمیوں میں بہت گرمی لگتی تو بھی اپنے ٹھنڈے علاقوں کا رخ کر لیتے تھے، گورا صاحب تو چلا گیا لیکن بدقسمتی سے وہی نظام ابھی تک چلے جا رہا ہے قوانین تبدیل ہوئے نہ معمولات۔ جس ملک میں اوپر سے نیچے تک عوام مشکلات کا شکار اور مسائل کا انبار ہو وہاں انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ عدالتیں 24گھنٹے اور سال کے 365 دن کھلی رہیں۔ پھر نہ کوئی بوسیدہ ہڈیوں کا بوجھ اٹھاتی پیاری ماں اسپتالوں کے چکر کاٹ کاٹ کر کے پنجاب کے ایک اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر تڑپ کرجان دے گی، نہ وفاقی دارالحکومت میں کسی جوڈیشل افسر کی گھمنڈی بیوی حوا کی معصوم بیٹی کے چہرے، ہاتھوں اور جسم کو راڈ سے لہو کرنے کی ہمت کر سکے گی، سندھ کے کسی علاقے میں بھوک راج کرے گی نہ بلوچستان کا کوئی مالی امور کا نگران سب کچھ لوٹنے کے بعد محض چند ٹکے دے کر پلی بارگین کرنے کی ہمت کر سکے گا؟ حکمران اور سیاستدان عوام کے دکھوں کا مداوا کریں ورنہ قوم ووطن پر جان قربان کرنے والے ہزاروں شہداء کا خون، ان کےصابر لواحقین اور آئندہ آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی، معلوم ہے سورج پر دستک دینا آسان نہیں لیکن ’’حرف صدا‘‘ بلند کر کے اپنے حصے کا چراغ تو جلایا جا سکتا ہے۔

.
تازہ ترین