• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل (ر) راحیل شریف کی فوجی کامیابیاں قابلِ فخر، لیکن ان کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ مقرر ہونے سے ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ اس بحث کے کئی ایک پہلو ہیں۔ پہلے پہلو کا تعلق پاکستان کے سول ملٹری تعلقات سے ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا وہ فوجی اتحاد جسے اسلامی فوجی اتحاد کہا جا رہا ہے واقعی ’’اسلامی‘‘ ہے یا فرقہ وارانہ اور بالادستی کی کشمکش کا حصہ ہے؟کیا یہ اتحاد تمام اسلامی ممالک کے اتحاد کا مظہر ہے یا اسلامی دنیا کے دو دھڑوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ ہے؟ تیسرا پہلو یہ کہ کیا جنرل راحیل کا یہ فیصلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے آسانیاں پیدا کرے گا یا مشکلات؟ اور چوتھا یہ کہ پاکستان کے مفادات پر کیا اثر ہو گا؟
جنرل (ر) راحیل شریف کا دور مجموعی طور پر سول ملٹری کشیدگی کا دور تھا، راحیل شریف کی اپنے عہدے کی مناسبت سے بہت زیادہ ذاتی تشہیر اور اپنے ادارے کا غیر رسمی طور پر دائرہ کار بڑھانے کی مسلسل اور قدرے جارحانہ پالیسی کی وجہ سے معاملات ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے۔ ان کی پالیسی سے نواز حکومت تو ناخوش تھی ہی کیونکہ ان کی پالیسی نہ صرف آئینی بندوبست اور جمہوری تقاضوں سے متصادم تھی بلکہ اس لئے بھی نواز حکومت کیلئے زیادہ تکلیف دہ تھی کہ یہ حکومت بذاتِ خود طاقت کے آمرانہ ارتکاز کا رجحان رکھتی ہے۔ سو 2014کے دھرنوں سے جس بلی اور چوہے کے کھیل کا آغاز ہوا، راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ چند ایک کالم نگار، اینکرز اور تجزیہ نگار جو عوامی مفاد اور جمہوریت کی عینک پہن کر چیزوں کا تجزیہ کرتے ہیں، نواز حکومت کی آمرانہ جمہوریت کے ناقد ہوتے ہوئے بھی راحیل پالیسی کی حمایت کرنے سے قاصر رہے، سو وہ جنرل (ر) راحیل کی بروقت پرامن ریٹائرمنٹ کے حامی تھی۔ جبکہ تحریک انصاف کی تیسرے امپائر والی پالیسی اور میڈیا کے چند حلقے جو ہر روز مارشل لا لگوانے اٹھتے اور رات گیارہ بجے تک مارشل لا تقریبا لگوا کر سوتے، راحیل پالیسی کے پُرجوش بلکہ خوشامد کی حد تک حامی تھے۔ یہی گروپ انکے بغیر مارشل لا لگائے ریٹائر ہونے پر راحیل شریف کے خلاف ہو گیا اور ان پر تنقید کے بہانے ڈھونڈنے لگا۔ اس طبع کے لوگوں کو انکی بروقت ریٹائرمنٹ میں کوئی ’’ڈیل‘‘ نظر آنے لگی۔ اب چونکہ راحیل شریف کی برادر اسلامی ملک کی نوکری کی تصدیق خواجہ آصف کی طرف سے آئی ہے، اور یہ بات بھی ہو رہی ہے کہ یہ آفر انکے ریٹائر ہونے سے پہلے ہی دے دی گئی تھی، تو ’’ڈیل‘‘ کا تاثر بھی مضبوط ہونے لگا ہے۔ ایک تو نواز شریف کے سعودی بادشاہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ آفر انکی رضا مندی کے بغیر نہیں آ سکتی، اور دوسری بات یہ کہ یہ تاثر بھی پھیلایا گیا تھا کہ نواز شریف راحیل شریف کی مدت میں توسیع یا فیلڈ مارشل بنائے جانے کے خلاف تھے، سو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کی پیشکش کو راحیل پالیسی کا ایک عقلمندانہ سیاسی حل کہا جا سکتا ہے۔ اس سے سول ملٹری تعلقات معمول پر آ گئے، انہیں اہم ترین فوجی عہدوں پر نئے لوگ لانے کا موقع مل گیا، مارشل لا کی قیاس آرائیاں ختم ہو گئیں اور سب سے اہم کہ راحیل شریف قومی ہیرو کی میراث کی بجائے متنازع ہو گئے۔ اب ان پر سنجیدہ اور جمہوریت پسند حلقے بھی تنقید کر رہے ہیں اور وہ سیاسی اور صحافتی حلقے بھی جنہیں انکے دور میں مبینہ طور پر ایجنڈا دیا جاتا تھا۔ علیحدہ بات ہے کہ دونوں گروہوں کی تنقید کی وجہ یکسر مختلف ہے۔
سنجیدہ حلقوں کی تنقید دیگر تین پہلوئوں کے حوالے سے ہے۔ انکا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اس فوجی اتحاد کا نام ضرور ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ ہے لیکن دراصل یہ تمام اسلامی ممالک پر مشتمل نہیں ہے۔ اس اتحاد کے قیام کا ایک سیاق و سباق ہے۔ جب امریکہ اور ایران کے ایٹمی معاہدے کیلئے مذاکرات ہو رہے تھے تو سعودی عرب امریکہ سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے 2010 میں وکی لیکس کے حوالے سے لکھا کہ امریکہ پر ’’سانپ کا سر کاٹنے‘‘ کیلئے زور ڈالا جا رہا تھا۔ لیکن امریکہ نے ایران پر حملہ کرنے کی بجائے 2015 میں اسکے ساتھ ایٹمی معاہدہ کر لیا۔ شام کی خانہ جنگی میں دونوں اسلامی ملک پہلے ہی پراکسی جنگ لڑ رہے تھے۔ 2015 میں یمن کی خانہ جنگی بھی دراصل سعودی عرب اور ایران کی پراکسی جنگ کا حصہ تھی لیکن امریکہ ایران ایٹمی معاہدے کے بعد امریکہ سے مایوس ہو کر سعودی عرب براہ راست یمن کی جنگ میں شامل ہو گیا۔ پاکستان نے دبائو کے باوجود خود کو اس جنگ سے دور رکھا۔ سعودی توقعات کے برعکس جنگ فوری ختم ہونے کی بجائےآج تک جاری ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی میں مزید اضافے پر اچانک اسلامی فوجی اتحاد کا اعلان کر دیا گیا جسمیں پاکستان کا نام تو شامل تھا لیکن پاکستان کو اسکا کو کچھ علم نہ تھا۔ ایران مخالف اتحاد کے تاثر کی وجہ سے اب تک پاکستان نے درست طور پر اس اتحاد پر ایک غیر واضح موقف اپنائے رکھا لیکن راحیل شریف کے اسکے سربراہ بننے سے اب یہ ابہام دور ہو گیا ہے۔
سو اس طرح معاملے کا تیسرا پہلو سامنے آتا ہے وہ یہ کہ اس فیصلے سے ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پہلے ہی پست ترین سطح پر ہیں، اب ایران کو بھی اس فہرست میں شامل سمجھیں۔ یار لوگ اسکے تانے بانے ایرانی صدر کے دورے کو "سبوتاژ" کرنے سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ قومی مفاد اور سلامتی کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں، مثلا کیا وزارتِ خارجہ کی رائے لی گئی ہے؟ کیا بیرون ملک ملازمت سے انتہائی خفیہ ایٹمی راز خطرے میں نہیں پڑ جائیں گے؟ انتہائی چوکس اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس بیرونی خفیہ ایجنسیوں سے بچنے کیلئے کیا انتہائی حساس عہدوں سے ریٹائر ہونے والے جرنیلوں کے بیرون ملک قیام اور بیرون ملک نوکریوں پر پابندی نہیں ہونی چاہئے یا کم از کم اس بارے میں مناسب قانون سازی نہیں ہونی چاہئے؟ کیا پاکستان ایک دفعہ پھر فرقہ وارانہ پراکسی جنگ کا میدانِ جنگ بننے جا رہا ہے؟ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ان سوالوں کے جواب ملنے چاہئیں!




.
تازہ ترین