• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سے لوگ سیاست کو عبادت قرار دیتے ہیں۔ یہ عبادت پیسے اور اقتدار کی ہونے لگے تو سیاست بدنام ہو جاتی ہے۔ بدنامی سے بچنے کیلئے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور سیاست میں کوئی حرف آخر بھی نہیں ہوتا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، کل تک عمران خان کہتے تھے کہ وہ شیخ رشید احمد کو اپنا چپڑاسی بھی رکھنا گوارا نہیں کریں گے لیکن کچھ ہی سالوں میں شیخ رشید احمد اس تانگے کی سواریوں میںشامل ہو گئے جس کے کوچوان عمران خان کو وہ معمولی کپتان کہہ کر غصہ دلایا کرتے تھے۔ ہمیں وہ زمانہ بھی یاد ہے جب شیخ رشید احمد بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک نجات میں سینے پر ہاتھ مار کر کہتے تھے کہ اگر نواز شریف کیلئے گولی کھانی پڑی تو سب سے پہلے میں سامنے آئوں گا۔ آج وہی شیخ صاحب دن رات نواز شریف کو کوستے ہیں اور انکی حکومت کے خاتمے کی دعائیں کرتے ہیں۔ نواز شریف صرف چند سال پہلے تک مولانا فضل الرحمان کو انتہائی مشکوک آدمی سمجھتے تھے اور مولانا صاحب کو بھی یہ شک تھا کہ ایک کالم نگار نے انہیں ’’مولانا ڈیزل ‘‘ کا خطاب نواز شریف کے اکسانے پر دیا ہے لیکن اب نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان ایک دوسرے کے بھائی بن چکے ہیں تاہم آصف زرداری کو یقین ہے کہ مولانا صاحب دراصل نواز شریف کے نہیں بلکہ ان کے بھائی ہیں اور مولانا صاحب بہت جلد نواز شریف کی اصلیت جان لیں گے۔ زرداری صاحب کی اصلیت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لہٰذا وہ دوسروں کی اصلیت سے بھی پردے ہٹاتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے فیصل صالح حیات کی اصلیت سے بھی پردہ ہٹا دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ فیصل صالح حیات پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائیں یا مسلم لیگ (ق) میں جائیں لیکن اندر سے وہ کل بھی ان کے دوست تھے اور آج بھی ان کے دوست ہیں۔ فیصل صالح حیات کی آصف زرداری سے ملاقات اور پیپلز پارٹی میں واپسی ان اہل فکر ودانش کیلئے ایک خفیف سا جھٹکا ہے جو پیپلز پارٹی کو مرحومہ قرار دینے لگے تھے۔ فیصل صالح حیات کی پیپلز پارٹی میں دوبارہ شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے سرائیکی علاقے سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن قومی اسمبلی نے ہمیں طنزیہ انداز میں کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ ٹی وی پر بیٹھ کر فیصل صالح حیات کو لوٹا کہیں گے اور سیاست دانوں کا مذاق اڑائیں گے لیکن بھائی جی بُرا نہ منانا فیصل صالح حیات کی پیپلز پارٹی میں واپسی آپ ٹی وی والوں کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ آپ نے تو اس پارٹی کو ختم کر دیا تھا۔ پھر مذکورہ رکن قومی اسمبلی نے سرگوشی کے انداز میں نیوز بریک کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب سے دو مزید بڑے نام بھی پیپلز پارٹی میں جانے والے ہیں لیکن یہ باتیں آپ کو سمجھ نہیں آئیں گی کیونکہ آپ لوگ صرف شہروں کی سیاست سمجھتے ہیں آپ کو ہماری دیہاتی سوچوں کی سمجھ نہیں آسکتی۔
فیصل صالح حیات کی پیپلز پارٹی میں واپسی کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ جو بھی آئے اس کیس نے مسلم لیگ (ن)کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ عمران خان نے پچھلے تین سال میں نواز شریف پر الزامات کی بوچھاڑ کئے رکھی لیکن وہ دیہی پنجاب میں اپنا ووٹ بنک نہیں بنا سکے۔ فیصل صالح حیات چاہتے تو آسانی سے تحریک انصاف میں آسکتے تھے۔ 2013ء کے الیکشن میں انہوں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا۔ مسلم لیگ (ن) کے غلام محمد لالی نے 93651اور فیصل صالح حیات نے 80541ووٹ لئے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 17220ووٹ لئے۔ تحریک انصاف یہاں موجود نہ تھی۔ 2008ء کے الیکشن میں فیصل صالح حیات نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور 72162ووٹ لئے، پیپلز پارٹی کی عابدہ حسین کو 56892 ووٹ ملے جبکہ ن لیگ نے بمشکل آٹھ ہزار ووٹ لئے، 2002ء میں فیصل صالح حیات نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 76201اور عابدہ حسین نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر 65436ووٹ لئے۔ جھنگ میں بڑے بڑے جاگیردار پیپلز پارٹی کو چھوڑتے رہے لیکن ووٹروں کی بڑی ا کثریت نے یہ پارٹی نہیں چھوڑی اور انہی ووٹروں نے فیصل صالح حیات کو پیپلز پارٹی میں واپسی پر مجبور کیا ہے۔
فیصل صالح حیات کی پیپلز پارٹی میں واپسی کا سن کر مجھے وہ وقت یاد آیا جب انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑی تھی۔ 2002ء کے الیکشن کے بعد فیصل صالح حیات نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مشورہ دیا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے مخدوم امین فہیم کو وزیر اعظم بنوایا جائے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر نوابزادہ نصراللہ خان کے ذریعہ اپنے دوست مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے تھے۔ نوابزادہ صاحب نے مسلم لیگ (ن)، ایم ایم اے، جے ڈ بلیو پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر وفاق سمیت سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اے آر ڈی کی حکومت بنانے کیلئے جوڑ توڑ شروع کر رکھا تھا۔ اس دوران فیصل صالح حیات نے راولپنڈی کی احتساب عدالت میں آصف زرداری سے ملاقات کی اور انہیں مخدوم امین فہیم کی حمایت پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن زرداری صاحب مولانا فضل الرحمان کو زبان دے چکے تھے۔ ایک دن پیپلز پارٹی کے رہنما انور بیگ نے اپنے گھر پر مخدوم امین فہیم کی امریکی سفیر نینسی پائول سے ملاقات کرا دی۔ اس ملاقات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پر دبائو آ گیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔ تب تک دیر ہو چکی تھی، فیصل صالح حیات اور انکے ساتھیوں نے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنوانے کیلئے پرویز مشرف سے ڈیل کرلی۔ فیصل صالح حیات کی بغاوت کی خبر سب سے پہلے میں نے جیونیوز پر بریک کی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے فون پر کہا آپ کی خبر غلط ہے۔ میں نے محترمہ سے کہا کہ میں فیصل صالح حیات کے گھر پر موجود ہوں اور ڈرائنگ روم میں آپ کے ایک درجن سے زیادہ ایم این اے موجود ہیں جو پریس کانفرنس کرکے جمالی صاحب کی حمایت کا اعلان کر دیں گے۔ محترمہ نے اومائی گاڈ کہہ کر فون بند کر دیا۔ پھر فیصل صالح حیات وزیر داخلہ بن گئے، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وزیر داخلہ بن کر وہ خاموشی سے اپنے دوست آصف علی زرداری کی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ خواجہ آصف کے کہنے پر سیف الرحمان کو پاکستان سے جانے کی اجازت بھی دے ڈ الی حالانکہ اسی سیف الرحمان نے فیصل صالح حیات پر وہ مقدمات بنائے تھے جن کے بارے میں نواز شریف نے اعتراف کیا کہ یہ مقدمات کسی کے کہنے پر بنائے گئے تھے۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے ساتھ این آر او کیا تو فیصل صالح حیات ہنسا کرتے تھے۔ اگر محترمہ زندہ رہتیں تو فیصل صالح حیات بہت پہلے پیپلز پارٹی میں واپس آ جاتے۔ انہوں نے واپسی میں بہت دیر لگا دی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ وہ سب کچھ بھول جائیں جو وہ آصف زرداری اور انور مجید کی مبینہ کرپشن کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ پہلے وہ زرداری کی کرپشن کے خلاف سیاست کر رہے تھے اب نواز شریف کی کرپشن کے خلاف سیاست کریں گے۔ اسی سیاست کو کچھ لوگ عبادت کہتے ہیں اور دور جدید کی اس عبادت نے عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری اور فیصل صالح حیات کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیاہے۔

.
تازہ ترین