• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے سمیسٹرمیں زیر تعلیم ایک نوجوان انجینئر کی ای میل نےمجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کردیا۔ وہ کچھ یوں مخاطب ہوا۔
شادباغ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی ماڈل ٹائون لاہور کا فاصلہ تقریباً 20 کلومیٹر ہے۔ میرے پاس یونیورسٹی تک پہنچنے کے چار راستے ہیں اول کوٹ خواجہ سعید، دوسرا کاچھو پورہ، تیسرا ایک موریہ پل اور چوتھا دو موریہ پل۔ عمومی طور پر کبھی ریلوے اسٹیشن، ڈیوس روڈ سےاور کبھی کبھی گڑھی شاہو سے کینال روڈ پر پہنچتا ہوں۔ تین ماہ ہو چکے ہیں یونیورسٹی پہنچنا اور وہاں سے واپس رہائش گاہ تک پہنچنا عذاب بنا ہوا ہے۔ کئی گھنٹے سڑک پر ہی صرف ہو جاتے ہیں، یک طرفہ راستہ 45منٹ کی بجائے کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری بے ضابطگی، ظلم وستم و بے انصافی کی صورت میں اسمبلی ہال، مال روڈ اور پریس کلب، کینال روڈ کی بندش، نیو کیمپس پر مظاہروں کی وجہ سے کئی کئی گھنٹے تک ٹریفک بند رہتی ہے جس کی وجہ سے اردگرد کی متعدد شاہراہیں عملی طور پر بند ہو جاتی ہیں۔ ماہانہ لاکھوں لٹر پٹرول اور ڈیزل ضائع ہوتا ہے۔ مریض، طلبہ اور ملازمین اپنے دفاتر اور شہری اپنی منازل پر بروقت پہنچ نہیں پاتے۔ ایک ہفتہ میں تین سے چار روز لاہور پریس کلب کے سامنے ایسے مظاہرہ ہوتا ہے جیسے کہ ثواب کا کام ہو۔ قومی دن ہو یا اور کوئی عالمی دن یہاں تماشہ ہی لگا رہتا ہے۔ اکثر مظاہرین کا تعلق بیرون لاہور سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو کچھ مظاہرین لاش سامنے رکھ کر محکمہ پولیس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ گنتی کے لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر صرف لاہور پریس کلب کی ایک سڑک کو بند کرتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ایمپریس روڈ، ڈیورنڈ روڈ، ڈیوس روڈ اور ایجرٹن روڈ کو بند کرتے ہیں جس کا اثر مال روڈ اور اسٹیشن تک دیکھا جاتا ہے اور تو اور گڑھی شاہو کی ملحقہ سڑکیں اور گلیاں بھی ٹریفک کیلئے بند ہوجاتی ہیں۔ لاہور پریس کلب کے سامنے جس دن مظاہرہ ہوتا ہے اس روز اس سڑک پر واقع ایک کالج اور پانچ اسکولوں کے بچے رل جاتے ہیں۔ ان چند مظاہرین کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پولیس سامنے خاموش تماشائی بنی کھڑی رہتی ہے۔ سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر ایک ریلی نکالی گئی جس کےحفاظتی اقدامات کی خاطر پولیس نے پیش بندی کے طور پر چند سڑکیں بند کر دیں، نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں پر ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ چھ گھنٹے تک ٹریفک ہی بحال نہ ہو سکی۔ مریضوں سمیت ہزاروں افراد پھنس گئے۔ یہ کون
لوگ تھے جو عوام کی زندگی مشکلات میں ڈالنے میں سرگرداں تھے؟ کیا وہ اپنی مرضی اور اپنی خواہش کسی ایک یا سب پر تھوپ سکتے ہیں؟ کیا ان کو یہ نہیں پتہ کہ ہماری مذہبی تعلیمات کیا ہیں؟ عرض ہے کہ اسلام اس دین حقیقی کا نام ہے جس کا آغاز انسانوں کی سلامتی سے اور اختتام بھی انسانی فلاح پر ہوتا ہے۔ ایک دن میں ایسے چند سو مظاہرین کو دیکھ کر دنگ رہ گیا جو ہزاروں لوگوں کا راستہ بند کر کے مال روڈ پر نماز ادا کر رہے تھے، جانے وہ کس کی خوشنودی حاصل کر رہے تھے؟ میرا دین تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تلاوت بھی اتنی اونچی آواز میں نہ کرو کہ ہمسائے کی نیند یا کسی کی مصروفیت میں مداخلت کا باعث بنے۔ میرا دین تو یہ بھی کہتا ہے کہ نیکیوں پر کیا گیا غرور بھی تمہیں لے ڈوبے گا اس سے پرہیز کرو۔ اپنا دین کسی پر مسلط نہ کرو۔ اپنے افعال، رویے اور کاروبار زندگی کو اس قدر صاف شفاف کرو کہ ہر کوئی تمہاری طرف خوش دلی سے متوجہ ہو کر تمہارا ہو جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کاروبار، لین دین اور رویوں میں ہم صاف شفاف نہیں ہیں۔ جس باب زندگی کو بھی کھولیں آلودہ پاتے ہیں۔ حکومت پنجاب کو چاہئے کہ لاہور ناصر باغ، باغ جناح سمیت متعدد جگہوں کو مظاہروں کیلئے مختص کر کے انہیں احتجاجی پارک کا درجہ دیدے۔ لاہور سمیت دیگر شہروں میں اگر یہ کردیا جائے اورعوام میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ کسی بھی زیادتی اور بے انصافی کی صورت میں مقررہ مقام پر جائیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں تو سڑکیں بند ہونے سے ہزاروں افراد کی زندگی اجیرن نہیں ہو گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مظاہرین اپنے اس رویے سےعوام کی حمایت اور توجہ حاصل کرنے کی بجائے انکا غصہ اور مخالفت مول لے لیتے ہیں۔ سڑکوں پر ان مظاہروں کو روکنے کیلئے قانون سازی بھی کی جانی چاہئے۔ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ احتجاج کی خاطر عوامی زندگی معطل کرے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچائے۔ اگر پنجاب حکومت فوری طورپر اس فلاحی مقصد کی طرف توجہ دے اور مقررہ احتجاجی پارک میں باقاعدہ اندراج شکایت اور ازالہ کیلئے انتظامات کر دے تو پہلے مرحلے میں ایک کروڑ کی آبادی اور دوسرے مرحلےمیں پنجاب بھر میں خوشگوار اثر پڑے گا۔ پنجاب حکومت نے فوڈ اتھارٹی کے ذریعے ملاوٹ کے خلاف جو زبردست مہم شروع کی ہوئی ہے وہ نہایت ہی خوش آئند ہے عوامی سطح پر اس کو بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ انتہائی سستے شوارمے اور زنگر برگر بنانے والوں کو بھی ضرور چیک کیا جائے کہ وہ کیسے اتنی کم قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ اکثر جگہوں پر مردہ گوشت پکا کر بیچنے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سستا شوارما بیچنے والوں اور کپٹرے دھونے والے صابن اور سرف مافیا کی طرف بھی توجہ دے جو سوڈا مقررہ مقدار سے زیادہ ڈال کر جلد کے کینسر کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمان ہونے کے ناتے تاجروں، کارخانہ داروں، دکانداروں سمیت سب پر فرض ہے کہ ملاوٹ کو نہ صرف حرام سمجھیں بلکہ اسے زندگی سے بالکل بیدخل کردیں تبھی وہ حقیقی کامیابی حاصل کر پائیں گے۔ وہ یہ جان لیں اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوسکتا ہے پھران کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

.
تازہ ترین