• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
5جنوری …پاکستان، عالم اسلام اور عالم تمام کے بطل جلیل ذوالفقار علی بھٹو کا یوم پیدائش تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی عوام ان کی سالگرہ منانے میں ذہناً اور عملاً یکسو رہے!
ذوالفقار علی بھٹو برصغیر کی تاریخ میں مخلوق خدا، مسلمانوں اور پھر ان دونوں میں موجود اکثریتی تعداد یعنی غریب، کمزور، بے بس، مقہور، مظلوم، بدبختیوں کے شکار انسانوں کےمایوس صحرا میں ان کے لئے صدائے ایمان و یقین، صدائے عزم و جہد، صدائے وقار و احترام بن کےابھرا، گونجا، چمکا، تھرتھرایا، لوگوں نے اسےجئے بھٹو کے جھنکار آمیز نعروں کی یلغار میں کندھوں پہ اٹھا کے اعلان کیا، ’’ہم ذلت کے مارے لوگوں‘‘ کی صف میں سے نکلنے کے لئے تمہارے شانہ بشانہ ہیں، تمہارا بے حد شکریہ تم نے ہمیں جگایا، حوصلہ دلایا، آس بندھائی، جئے بھٹو!
ذوالفقار علی بھٹو کے ارتقائے انسانی کے اس سفر کو پاکستان میں موجود جس طبقے اوراس کے جس ٹائپ کے نمائندے نے ویران اور بنجر سرزمین میں بدل دیا۔ اس کی تاریخ ظلم اور شقاوت سے انسانی لہو پیتی، آبادیاں اجاڑتی، رونقیں کھا جاتی، شامیںبرباد سے عبارت ہے۔ اس طبقے میں شامل پاکستان کے جاگیردار، سرمایہ دار، بڑے تاجر، عالم اسلام کی شہنشاہتوں اورعالمی سامراج کے ٹارگٹڈ مقاصد نے، جن کے آخری سرے پر مسلم دنیا کے تمام سراٹھا کر جینے کے آرزومندرہنمائوں کے سر جھکانا یا قلم کرنا لکھا تھا، عالمی سامراج اس طبقے کے ساتھ مل کر اس میں سوفیصد کامیاب رہا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت اس وقت تک انصاف کا قتل شمار ہوگا جب تک پاکستان کے عدالتی نظام کے ریکارڈ میں اس فوجداری مقدمے کو بطور مشکوک اور متنازع حوالے سے خارج نہیں کیا جاتا۔
چنانچہ اس غیرمعمولی شخصیت کے اس ’’عدالتی قتل‘‘ پر نوحہ خوانی، ایک فرد کی موت پر آہ و فغاں کی نوعیت نہیں، اسے آپ دنیا بھر کے ان تمام مظلوم لوگوں کی آہوں کا سندیسہ سمجھیں جنہیں انصاف نہ مل سکا۔
پاکستان پیپلزپارٹی، کن مراحل سے گزری، کن سے گزرےگی، یہ پارٹی رہنمائوں، پارٹی دانشوروں کا درد سر ہے، وہ جو صرف لفظ کےامانت دار قلمکار ہیں وہ تو اس عوامی سمندر کو انسانی آزادی کا محافظ قرار دیتے ہیں!
آیئے اب بھٹو صاحب کے دوران مقدمہ بیانئے کے بعض اسرار کریدیں!
’’امریکی وزیر خارجہ کی تجویز کے جواب میں، میں نے پاکستان کے وزیرخارجہ کو پیرس بھیجا کہ وہ ان سے خفیہ مذاکرات کریں۔ میرے وزیر خارجہ پچاس صفحات پر مشتمل وہ دستاویز بھی لے گئےجس میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑے پیمانے پر بیرونی مداخلت کا واضح ثبوت موجود تھا۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ احتیاط جرأت سے بہتر ہے، امریکی وزیر خارجہ نے بڑی عقل مندی سے اس دستاویز کو نہ دیکھنا مناسب سمجھا۔ اس کے برعکس ان کی تجویز یہ تھی کہ ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہئے اور نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کرنا چاہئے۔ اسی رات ہوٹل کے اس کمرے پر حملہ کیا گیا جس میں پاکستان کے وزیرخارجہ ٹھہرےہوئے تھےلیکن وہ دستاویز پاکستان کے سفارتخانے کی تحویل میں تھی اس لئے ہوٹل کے اس کمرے سے کوئی چیز بھی نہیں لی گئی۔‘‘
’’5جولائی 1977کے واقعات کے فوراً بعد ہی مسٹر عزیز احمد نے دستاویز کی ایک نقل مسٹر غلام اسحاق خان کو دی۔ یہ کاپی دفترخارجہ نے تیار کی تھی۔ انہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس کا بغور مطالعہ کریں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ 1977کے موسم بہار کی ایجی ٹیشن کے دوران واقعات کس انداز سے منظر عام پر آئے۔مجھے افسوس ہے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ مسٹر غلام اسحاق خان کے عہدے کا صحیح تعین کروں کیونکہ نہ وہ میرے حافظہ میں ہے نہ میں اسے سمجھا سکا ہوں تاہم غلط یا صحیح انہیں عملی طور پر موجودہ حکومت کا وزیراعظم سمجھا جاتا ہے اس لئے عدالت کے لئے ان کی شناخت مشکل نہیں ہوگی۔ اس کا انحصار عدالت پر ہے کہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس کی تصدیق کے لئے وہ مسٹر غلام اسحاق خان یا مسٹر عزیز احمد کو طلب کرتی ہے تاہم میں درخواست کروں گا کہ فاضل عدالت پچاس صفحات کی وہ دستاویز ضرور طلب کرے جو دفترخارجہ نے تیار کی تھی جس میں بیرونی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کی تفصیلات درج تھیں۔
وزیراعظم کا لیہان ایک رات کے لئے پاکستان آئے اور سورج طلوع ہونے تک وہ اپنے ساتھ چالیس لاکھ پونڈ کی رقم لے گئے جو برطانوی انشورنس کمپنیاں اپنی انشورنس کمپنیوں کے قومیائے جانے کے عوض طلب کر رہی تھیں۔ میری حکومت چار سال سے زائد عرصے تک ان کے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے دعوئوں کی ادائیگی سے انکار کرتی رہی لیکن مسٹر کالیہان نے انگلی اٹھاتے ہی دعویٰ منظور کرالیا لیکن میں نے خلوت کی کسی سرگوشی سے متاثر ہو کربڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے چالیس لاکھ پونڈ کے دعوے کو قبول نہیں کیا۔ ہمارے اعداد و شمار کی سلامتی کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ کیا بیلنس شیٹ میں برطانیہ پاکستان کا قرض دار ہے یا پاکستان برطانیہ کا مقروض ہے۔ میں اس بات کو کھولنا نہیں چاہتا،یہ تو ہر اسکول کی نرسری کا قافیہ ہے۔
سازشیوں نے افلاطون کے ’’فلسفی بادشاہ‘‘ کو ہٹا دیا۔ اس ٹولے نے ارسطو کے ’’سیاسی حیوان‘‘ کو ہٹایا۔ شکاری کتوں نے کار لائل کے ’’ہیرو‘‘ کو ہٹایا۔ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تلوار کو ہٹایا اور اسٹیج کو مسخروں اور بھانڈوں سے بھر دیا اور ابھی تک وہ بڑی ڈھٹائی سے پاکستان کی سلامتی کاذکر کر رہے ہیں۔ یہ چکر صرف اقتدار کی ہوس پوری کرنے کے لئے چلایا گیا ہے۔ دستور کو عجائب گھر میں ڈال دیا گیا ہے اورکوڑوں کوپارلیمنٹ کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔ معیشت کو رہزن ، وڈیروں اور چھوٹے مڈل مین کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔‘‘

نپولین نے کہا تھا ’’فوجیں اپنے معدے پرمارچ کرتی ہیں‘‘ بیس سال قبل ہالی وڈ نے لاہور میں ایک فلم بنائی تھی اور امریکہ کی انارکلی ایوا گارڈنر ہیروئن تھی۔ اس کا نام ’’بھوانی جنکشن‘‘ تھا۔ بیس برس گزر چکے، ایوا گارڈنر کا حسن یادوں کے جھروکے میں چلا گیا لیکن پاکستان ’بھوانی جنکشن‘‘ بن چکا اور تجارت اور ٹریفک کے چوراہے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا۔ اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کرلیتا۔ یہ اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کہیں کم اذیت اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کافیصلہ قادرِ مطلق کے ہاتھ ہی ہوتا ہے۔ میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوسکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم میں تعمیر کردیا ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس ’’بلیک ہول‘‘ میں اپنے ضمیر کے ساتھ پرسکون ہوں!‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے بیانئے کی یہ چند جھلکیاں کیا ہیں؟ ان میں اس سازش اور منصوبے کی ہمہ گیریت سامنے آتی ہے جس نے پاکستان کی سلامتی اوربقا کو تیندوے کی طرح جکڑ لیا اور اس کی دھرتی انسانی لہو کے لئے ارزاں کردی!
اصل بحران پیپلزپارٹی سمیت ترقی پسند جماعتوں کے اندر موجود ’’سیاسی شطونگڑے‘‘ ہیں جو کہیں ’’گینگ آف فور‘‘ کی صورت میں اور کہیں ’’اصلاح پسندی‘‘ کے نام پراپنے نفس پرستانہ مفادات کے لئے جماعتوں کی قیادت اور سادہ لوح عوام سے فریب کارانہ کھیل کھیلتے ہیں۔
تازہ ترین