• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیبرپختونخوا میں برسراقتدارتحریک انصاف جو مسلسل اس بات کا دعوی کرتی رہی ہے کہ اس نے نہ صرف سب سے بہتربلدیاتی نظام دیا بلکہ منتخب نمائندوں کو بااختیاربھی بنایااس بات کا ڈھنڈورا پورے ملک میں پیٹا جاتارہا لیکن یہ واحد صوبہ ہے جہاں پر بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ بھی ابھی پورا نہیں ہوپایا تھا کہ منتخب نمائندے سڑکوں پرآگئے اور شکوہ کیا کہ آئین میں بلدیاتی نظام کے لئے جوطریقہ کاروضع کیا گیا ہے اس پرعمل درآمد نہیں ہورہا اورمنتخب نمائندوں کو وہ اختیارات نہیں دیئے گئے جو آئین میں درج ہیں۔ صوبے میں 2009میں بننے والی لوکل کونسل ایسوسی ایشن اختیارات ان سے لے کر سرکاری افسروں کو دینے کے خلاف سڑکوں پرآچکی ہے اورچاہتی ہے کہ یہ اختیارات انہیں دیئے جائیں۔
مسئلے یا تنازع کو سمجھنے کے لئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کی طرف رجوع کرنا ہوگا جسے جنرل پرویزمشرف کے دورمیں سترھویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا اورجسے غوروخوض کے بعد سینیٹررضا ربانی کی قیادت میں آئین کا جائزہ لینے والی پارلیمانی کمیٹی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین میں جوں کا توں برقراررکھا۔ آئین کا آرٹیکل 140 اے بتاتا ہے کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتیں قائم کرینگی اور انہیں تمام سیاسی،انتظامی اورمالی اختیارات و فرائض بھی دیں گی جنہیں صرف مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندے ہی استعمال کرینگے لیکن خیبرپختونخوا میں درحقیقت یہ اختیارات ان نمائندوں کی بجائے بیوروکریسی کو دے دیئے گئے ہیں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں قانون بنا اوررواں سال 30مئی کو اسی کے تحت بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اسی کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ضلعی، تحصیل اورویلج ونیبر ہڈ کونسلیں توقائم ہوئیں لیکن لوکل گورنمنٹ رولز آف بزنس جاری نہیں کئے گئے ضلعی اورتحصیل ناظمین کے انتخابات ہوئے جس میں تحریک انصاف صوبے میں اکثریتی جماعت بن کرابھری لیکن بحیثیت مجموعی صوبے کے چوبیس اضلاع میں سے صرف 9 میں اسے ضلعی حکومتیں بنانے کا موقع مل سکا جبکہ صوبے کی 74تحصیلوں میں اس کے 40 کے قریب ناظم بنے۔ ضلعی اورتحصیل ناظمین کے انتخابات کے بعد بھی لوکل گورنمنٹ رولزآف بزنس چیف منسٹرسیکرٹریٹ میں منظوری کے منتظررہے اورانہیں نومبرمیں جاری بھی کیا گیا اوراس کے ساتھ ہی محکمہ ترقی ومنصوبہ بندی کی جانب سے اضلاع، تحصیلوں، دیہی ونائبرہڈ کونسلوں میں ترقیاتی اسکیموں کی منظوری کا طریقہ کاریعنی پالیسی گائیڈ لائن جاری کی گئی جس کے مطالعے سے یہ بات واضح طورپرسامنے آئی کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو جو سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات دیئے جانے تھے وہ ان سے چھین کرڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں اوراسسٹنٹ ڈائریکٹرلوکل گورنمنٹ کو دیئے گئے ہیں زیادہ تفصیل میں جائے بغیرصرف چند مثالیں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں سے کس کمال ہوشیاری سے سب کچھ چھین کر بیوروکریسی کے حوالے کیا گیا اورمنتخب نمائندوں کو محض شوپیس سے زیادہ کی حیثیت نہیں دی گئی۔ ضلعی حکومتوں میں ضلع میں ترقیاتی منصوبوں کی حتمی منظوری کا اختیارڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی یعنی ڈی ڈی سی کے سپرد کیا گیا ہے جس کی منظوری کے بعد ہی کوئی ترقیاتی اسکیم ٹینڈرکی جاسکتی ہے لیکن اس ڈی ڈی سی کا چیئرمین کوئی منتخب نمائندہ نہیں بلکہ ضلع کا ڈپٹی کمشنرہوگا جبکہ ضلعی حکومت کا سربراہ اس کمیٹی کا ممبربھی نہیں ہے حالانکہ حق تویہ ہے کہ ضلع ناظم اس کمیٹی کا چیئرمین ہوتا۔ اسی طرح ضلع میں ایک اورمتوازی نظام قائم کیا گیااورڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ ایڈوائزری کمیٹی یا ڈیڈیک کا چیئرمین صوبائی اسمبلی کا ممبر ہوگا جس میں ضلع اورتحصیل ناظمین کو اس کا ممبرتوبنایاگیا ہے لیکن وہ کسی معاملے پرووٹ دینے کا حقداربھی نہیں ہوگا بلکہ صرف تماش بین ہوگا اسی طرح ڈپٹی کمشنرکی سالانہ خفیہ کارکردگی رپورٹ یعنی اے سی آرکمشنرلکھے گا حالانکہ ماضی میں یہ اختیارضلع ناظم کے پاس تھا، ضلع میں گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک سرکاری ملازمین کے ترقی تبادلوں کا اختیارضلعی حکومتوں سے لے لیاگیا ہے اوراس بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کام جاری پالیسی کے تحت صوبائی حکومت ہی کرے گی۔ یوں تواختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ مقامی سطح پرمقامی حکومتوں کے منتخب نمائندے اپنی ضرورت کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کے لئے درجہ بندی کریں اوراپنی ترجیحات کا تعین کریں لیکن پی اینڈ ڈی کی دی ہوئی گائیڈ لائن میں ضلع کونسلوں کے اس اختیارکو محدود کیا گیا ہے اورانہیں پابند کردیا گیا ہے کہ وہ کس سیکٹرمیں ترقیاتی فنڈ کا کتنا حصہ خرچ کرینگے۔ ضلع کونسلوں کواپنے مرضی سےضلع کے ترقیاتی فنڈ کا صرف پچیس فیصد حصہ خرچ کرنے کا اختیارہوگا جبکہ بقایا پچھترفیصد فنڈ خرچ کرنے کے لئے وہ پی اینڈ ڈی کے بنائے گئے گائیڈلائن پرعمل درآمد کے پابند ہونگے۔
تحصیل حکومتوں کی حالت تواس سے بھی بری ہے تحصیل میں تحصیل ڈویلپمنٹ کمیٹی یا ٹی ڈی سی ہوگی جس کی حتمی منظوری کے بعد کوئی ترقیاتی اسکیم ٹینڈرہوسکے گی لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹی ڈی سی کا چیئرمین اسسٹنٹ کمشنرکوبنایا گیا ہے جبکہ تحصیل ناظم کو ٹی ڈی سی کا ممبرتک نہیں بنایا گیا ہے اسی طرح دیہی اورنیبرہڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی کابھی سربراہ اسسٹنٹ کمشنرہی ہوگا۔ یہ ہے اصل کہانی اورلوکل کونسل ایسوسی ایشن کی جانب سے لوکل گورنمنٹ رولزآف بزنس اورپی اینڈ ڈی گائیڈ لائن کے ذریعے مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو ان کے آئینی اورقانونی حقوق سے محروم کرنے کے خلاف احتجاج کی وجہ۔
اب ہوگا یہ کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹوڈپٹی کمشنروں اوراسسٹنٹ کمشنروں کے ذریعے مقامی حکومتوں کوکنٹرول میں رکھیں گے اورمقامی حکومتوں کے منتخب نمائندے محض تماشائی کا کردارادا کرینگے۔ لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ رولزآف بزنس اورپی اینڈ ڈی گائیڈ لائنز فی الفورمنسوخ کئے جائیں اورآئین کے آرٹیکل 140اے کی روشنی میں نئے لوکل گورنمنٹ رولز آف بزنس بناکرمقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کوآئین کے تحت حاصل تمام ترسیاسی، مالی اورانتظامی اختیارات منتقل کئے جائیں۔ ڈیڈلایک کو ختم کیا جائے، ڈی ڈی سی کا چیئرمین ضلع ناظم اورٹی ڈی سی کا چیئرمین تحصیل ناظم کوبنایا جائے اوراسی طرح ویلج اورنیبرہڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی کا سربراہ بھی منتخب نمائندے کوبنایا جائے۔ ضلع میں گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین کے تبادلوں اورتعیناتیوں کا اختیارضلعی حکومتوں کودیا جائے اورڈپٹی کمشنرکااے سی آربھی ضلع ناظم لکھے۔ ایسوسی ایشن نے ڈسٹرکٹ، ٹائون اورویلج ونیبرہڈ کونسلروں کے لئے مناسب اعزازیے کا بھی مطالبہ کیا ہے اورویلج ونیبرہڈ کونسلوں کے لئے دفاترکے فوری قیام، ویلج سیکرٹریوں کی فوری تعیناتی اورانہیں فی الفورترقیاتی فنڈزبھی جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے اب ایک ایسی صورتحال میں اس نظام کو کیسے عوام کے منتخب نمائندوں کا نظام کہا جاسکتاہے جس میں منتخب نمائندوں پرسرکاری افسرغالب رہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کاجواب کسی کو معلوم نہیں۔
تازہ ترین