• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سال رواں ملکی سیاسی تاریخ میں اس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے لئے اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کا آخری سال ہے، جس کی روشنی میں اسے2018کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہوگی گوکہ اب نہ تو حکومت کو بھاری مینڈیٹ کی توقع کرنی چاہئے اور نہ ہی باقی صوبوں سے زیادہ اپنے صوبہ(پنجاب)سے زیادہ توقع کرنی چاہئے۔ اس حکومت کے حوالے سے ان کی تمام مخالف جماعتیں خاص کرتحریک انصاف کے حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ حکومت کے پہلے 100دن کے دعوے کیا پورے ہوئے اور اب کیاتوانائی کے بحران کے حل کے وعدے انتخابات سے پہلے پورے ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی سیاسی میدان میں کچھ نئے عزائم اور ایجنڈے کے ساتھ اترنے والی ہے جس کا بنیادی مقصد عوام اور خاص کر دیہی علاقوں کےعوام کو یہ باور کرانا ہے کہ پیپلز پارٹی ہی ان کی نمائندہ جماعت ہے اور ابھی 2018 کے بعد ان کی خدمت کر سکتی ہے۔ کاش! یہ بات صحیح ثابت ہو، مگر اس وقت پی پی پی ہو یا پی پی پی پی انہیں بنیادی طور پر اپنے امیج کی بحالی کے چیلنج کا سامنا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی پاناما کیس کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آرہی ہے۔ انہیں البتہ یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ نہ ہی جاتے تو اچھا تھا۔ اسی پریشانی کا اظہار ان کی اعلیٰ قیادت اور قائدین نجی محفلوں میں کرنا شروع ہوگئی ہے۔ اس وقت کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں بڑی پارٹیوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور خاص کر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ٹیم نے بڑی موثر حکمت عملی سے تمام اداروں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر قابو کررکھا ہے، البتہ انہیں کچھ خطرہ عدلیہ سے محسوس ہوتا رہتا ہے مگر پھر حکمران جماعت تسلی سے پاناما کیس کو ہینڈل کرنے کی نئی سے نئی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔
اس وقت عوام کو یاد رکھنا چاہئے کہ حکومت کا اقتدار سنبھالتے ہی یہ دعویٰ تھا کہ وہ پبلک سیکٹر کے اداروں کی خراب صورتحال کو نہ صرف بہتر بنائیں گے بلکہ ان کو دئیے جانے والے سالانہ 500سے 600ارب روپے کے بوجھ سے بھی نجات دلائیں گے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ ادارےسٹیل مل، پی آئی اے وغیرہ بدستور اس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ریلوے کے حالات ضرور بہتر ہورہے ہیں مگر اتنے نہیں کہ حکمران اس پر فخر کرسکیں۔ ریلوے میں ایک ایشو ریونیو میں اضافہ سے زیادہ ریونیو کی چوری کا بھی ہے۔ اس طرح پاکستان ا سٹیل مل کی حالت خراب سے خراب تر ہورہی ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی سرمایہ کار گروپ اس کی خریداری میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان سٹاک ایکسچینج اورکےالیکٹرک عملی طور پر حاصل کرچکے ہیں، اگرا سٹیل مل بھی ان کو دے دی گئی تو پاک چین دوستی کا خواب تو پورا ہوجائے گا مگر اس کی بھاری قیمت قوم کو ادا کرنا پڑے گی۔ اس لئے کہ CPECمنصوبے کی کامیابی سے پاکستان سے زیادہ چین اپنے اقتصادی اور جغرافیائی مقاصد حاصل کررہا ہے۔ یہ سب حقائق وہ ہیں جن کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا ا پنا ایجنڈا مرتب کریں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی پاناما کیس کے پس منظر میں اخلاقی طور پر خراب صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم ہونے والے ہیں تاکہ 2018کے انتخابات کے بعد مخلوط قومی حکومت بننے کی صورت میں وزیر اعظم بن سکیں۔ یہ سب خواہشات ہیں جن کا پورا ہونے کا انحصار اس سال جولائی سے دسمبر کے حالات پر ہے اس وقت تک میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کیا کچھ کرتی ہے یہ صورتحال ا ٓنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گی۔


.
تازہ ترین