• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ اسے پی ایم ایل (ن) کا انتقام کہہ سکتے ہیں۔اُن کے سابق درد ِسر، جنرل راحیل شریف ابھی منصب سے ہٹے ہی تھے کہ وہ اُنہیں متنازع بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔وزیر ِدفاع کے دودھاری بیانات ملاحظہ فرمائیں۔ ایک طرف تو اُنھوںنے یہ تاثر دیاکہ جنرل راحیل شریف کی طرف سے اُس اساطیری فورس کی کمان ، جو فی الحال عرب بھائیوں کے تخیلات میں ہے ، ایک ڈیل کے تحت ہے ، لیکن اب وہ فرما رہے ہیں کہ حکومت اس بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ خود کو عقل ِ کل سمجھااور جنرل کو نقصان پہنچا یا گیا ، اور شاید مقصد بھی یہی تھا۔
ریٹائرجنرل کو کون بتائے کہ کیا طرز ِعمل مناسب ہوگا، درست کیا ہے، نقصان کہاںسے پہنچنے کا اندیشہ ہے ؟ خواجہ آصف کے ذو معانی بیان کے بعد اُن کی طرف سے ابھی تک تردیدیا وضاحت کیوں نہیں آئی ؟کیا اس معاملے نے اُن کے وقار کو دھچکانہیں پہنچایا ؟ جنرل صاحب کی پریشانی پر پی ایم ایل (ن) کے بقراط خوشی سے دہرے ہورہے ہوں گے۔بہرحال ایک بات دھیان میں رہنی چاہئے کہ نہ کوئی جنرل راحیل شریف، نہ ہی کوئی فیلڈ مارشل منٹگمری یا کوئی اور دیومائی صلاحیتوں کا مالک جنرل ہمارے عرب بھائیوں کو اس الجھن سے نکال سکتا ہے جس میں اُنھوںنے خود کو پھنسا لیا ہے ۔ اُنھوںنے یمن کی دلدل میں خود قدم رکھا تھا، اور اب وہاں سے قدم واپس نکالنا آسان نہیں۔ اُن کی شام کی پالیسی مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی۔ وہ اسد کو گرانا چاہتے تھے ،لیکن اس کوشش کا الٹا نتیجہ نکلا ۔ اب جبکہ شام طویل اذیت کاشکار ، اسد فتح یاب ہوکر ابھر رہے ہیں۔ اب شامی محاذ پر عربوں کے ترکش میں کوئی تیر باقی نہیں۔ قریب ہی لڑی جانے والی عراقی جنگ میں بھی وہ بے معانی انداز میں ایک طرف کھڑے ہیں۔
ان کا دہشت گردی کے خلاف نام نہاد ’’اسلامک ڈیفنس الائنس‘ بھی کم ہوتی ہوئی اہمیت بحال کرنے کی ایک بے کار کوشش ۔ افسوس کوئی فتح مند جنرل بھی بے معانی کوشش کو معانی خیز نہیں بنا سکتا ۔ تو پھر جنرل راحیل شریف اس کی ذمہ داری لینے کا کیوں سوچ رہے ہیں؟اور اگر اس کے پیچھے صرف پرکشش مشاہرہ ہے تو پھر اس پر کچھ نہ کہنا ہی بہتر ۔ اس واقعہ سے ایک چیز البتہ واضح ہوجاتی ہے ۔ اگر جنرل راحیل کا مستقبل میں داخلی سیاست میںکوئی کردار ہوسکتا تھاتو یہ دروازہ اب بند ہوچکا۔ اب اس بات کے امکانات بہت معدوم ہیں کہ لوگ پاکستان کے بے شمار مسائل حل کرنے والا ایک مسیحا یا نئی منازل کی سمت لے جانے والا رہنماسمجھ کر اُن کی طرف دیکھیں گے اور بہت سے امکانات اُن کے دروازے پر دستک دیں گے ۔ اب یہ شیش محل توقع سے بہت پہلے ہی بکھر چکا۔
اب ہمارے پاس میدان میں پرانے گھوڑے ہی ہیں۔ ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی ، اور اس کے لئے ہمیں پاناما انکشافات کا شکریہ ادا کرنا چاہئےکہ اگرچہ پی ایم ایل (ن) انتہائی طاقتور دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا اعتماد متزلزل ہوچکا ۔ ہمیں اس غلط فہمی میں البتہ نہیں رہنا چاہئے کہ اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا،لیکن اس کی قیادت کے دامن پر سمندر پار اکائونٹس اور غیر ملکی جائیداد کا داغ نمایاں ہوچکا ہے ۔ اگرچہ یہ چیزیں پہلے بھی اپنی جگہ پر موجود تھیں لیکن اب یہ اسکینڈل عوام کے ذہن پر ایک گہرا تاثرقائم کرچکا ہے ۔ مرکزی پنجاب میں ایسے لوگوں موجود تھے جن کے خیال میں پاکستان کو درپیش مسائل کا حل شریف برادران کے پاس ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر انہیں ووٹ دیں (اگرچہ اس بات کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی)لیکن پاناما دھچکے سے ان کاامیج بکھرکر رہ گیا ہے ۔ اب ان کے ہاتھ سے یہ طاقتور دلیل بھی نکل چکی کہ اُنہیں کبھی اپنی مدت پوری کرتے ہوئے قوم کی خدمت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اب اُن کی مدت پوری ہوگی، اور اگر اس میں پنجاب کی حکومت کو شامل کرلیا جائے تو ان کے پاس گزشتہ دس سال سے حکومت ہے ۔ اس سے پہلے یہ پنجاب اور مرکز میں بیس سال تک حکومت کرچکے ہیں۔ چنانچہ اب نااہلی اور کوتاہی کو چھپانے کے لئے کوئی پرانا بہانہ کام نہیں دے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین عرصے کے لئے حکومت کرنے والوں کے پاس چند ایک میگا پروجیکٹس کے سوا دکھانے کے لئے کیا ہے ؟ ہر اچھی چیز بھی آخرکار بور کردیتی ہے ۔ اگر مزیدار کھانے بھی تواتر سے دستر خوان کی زنیت بنتے رہیں تو آپ اکتاتے ہوئے اُنہیں اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ میگا پروجیکٹس کی کشش ، اگر اب تک ماند نہیں پڑی ، بہت جلد دھندلا جائے گی۔ اس کے بعد ان کا اقتدار میں کارکردگی کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ تاہم یہ بھی اپنی جگہ درست کہ پی ایم ایل (ن) کو کمزور سمجھنا غلطی ہوگا۔یہ پنجاب میں بے حد طاقتور ہے ، اور اگر آپ ہر حلقے سے قابل ِ انتخاب ہیوی ویٹس کا جائزہ لیں تو اس کی صف طاقتور دکھائی دیتی ہے ۔ طاقت کے اس جھکائو کو کس طرح برہم کیا جائے ؟ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے سامنے اولین چیلنج یہی ہے ۔
پنجاب میں مضبوط ترین اپوزیشن پی ٹی آئی ہے ۔ یہی عمران خان کی کامیابی ہے ، اور اس کے لئے اُنھوںنے طویل عرصے سے سخت محنت کی ،لیکن اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ پنجاب میں اکیلی جیت سکتی ہے تو یہ ان کی بھول ہے ۔ انہیں فوری طور پر پنجاب کا سیاسی نقشہ پڑھنا چاہئے ۔ پی ایم ایل (ن) کو چیلنج کرنے اور اس کے مضبوط سیاسی قلعے کو ہلانے کے لئے میری رائے میں پی ٹی آئی کو مقامی سطح پر کچھ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوںگی، جیسا کہ پنجاب کے کچھ حلقوں، جہاں پی ایم ایل (ق) مضبوط ہے ، میں چوہدری پرویز الہٰی سے مفاہمت کرنے میں کوئی حرج نہیں، نیز پی پی پی ، جو اپنی خاکستر کو کریدتے ہوئے اب پھر سراٹھانے کی کوشش کررہی ، کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔ فیصل صالح حیات کی اپنی پرانی پارٹی میں واپسی آنے والے حالات کا پتہ دیتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں کچھ مزید اہم رہنما بھی اس کی طرف واپس لوٹتے دکھائی دیں۔ مسٹر حیات جھنگ میں ایک سیاسی ہیوی ویٹ ہیں اور ان کی شمولیت سے پی پی پی پنجا ب کو یقینی طور پر تقویت ملے گی ۔ اس طرح ملتان کے گیلانی، رحیم یار خان کے مخدوم، اور لاہورسے کوئی ، جیسا کہ ثمینہ گھرکی،لالہ موسیٰ سے کائرہ، گجرخان سے میرے دوست راجہ پرویز اشرف اور اس طرح وسطیٰ پنجاب سے کئی ایک شخصیات قابل ِ انتخاب سیاست دان ہیں۔ اگرچہ گزشتہ انتخابات کے بعد پی پی پی کو سیاسی طور پر نظر انداز کرنا ایک فیشن بن چکا تھا لیکن اب اس کے تن ِ مردہ میں آہستہ آہستہ جان دوڑ رہی ہے ۔ یقینا’ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘۔
تاہم ایک وسیع تر نکتہ سمجھنا ہوگا کہ اس وقت پی ایم ایل (ن) کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی جماعت کے پر تنہا پرواز کا بوجھ نہیں سہار سکتے ۔ ضروری ہے کہ ان کے مقابلے پر ایک لچک دار سیاسی اتحاد قائم کیا جائے ۔ اگر نوابزادہ نصر اﷲ حیات ہوتے تو اب تک ایسے اتحاد کی تشکیل کے لئے کام شروع کرچکے ہوتے ۔ موجودہ سیاسی میدان میں اُن جیسا ذی فہم اور سیاسی بخیہ گری کرنے والا اور کوئی نہیں۔ آگ اور پانی کو ملانے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے ۔ ہوسکتاہے یہ بات عجیب لگے ، اور میں جانتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سن کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجائیں ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس صفت میں نوابزادہ مرحوم کے قریب ترین ہے تو شیخ رشید احمد ہیں۔ تاہم آج یہ کام آسان نہیں۔ عمران خان اونچی ہوائوں میں اڑتے ہیں، لیکن پھر اُن کے پاس اس کا جواز بھی موجود ہے کہ وہ ایک عوامی طور پر مقبول رہنما ہیں۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب خان کے خلاف چلائی جانےوالی تحریک کو نکال کر پاکستان کی سیاست میں ہیروز کی سیاسی سمائی نہیں ہے ۔ 1970 ء میں تو بھٹو کی مقبولیت کا یہ عالم کہ اگر وہ بجلی کےلئے کھمبوں کو بھی ٹکٹ دیتے تو وہ بھی جیت جاتے۔ مولانا کوثر نیازی جیل میں تھے لیکن سیالکوٹ کے ایک حلقے، جہاں وہ کبھی گئے بھی نہیں تھے، سے ایم این اے منتخب ہوگئے ۔ اب وہ دور لد چکا۔ شریف برادران کے پیچھے 2013میں عوامی مقبولیت تھی ، لیکن اب یہ لہر اتر چکی ۔ اس دوران پاناما سماعت سے کوئی معجزہ رونما نہیں ہوگا۔ اس لئے میر ا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کو عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کب تک خفیہ دولت اورنااہل قیادت کی آمریت کو برداشت کرتا رہے گا؟



.
تازہ ترین