• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ الفاظ سننے میں بہت اچھے لگتے ہیں لیکن جب انکی گہرائی میں جا کر سوچا جائے تو اُن کا چارم نہ صرف ختم ہو جاتا ہے بلکہ اُن لفظوں کے نئے معانی اور خدوخال سامنے آنے لگتے ہیں۔ جو منفی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ انسانوں کی کچھ محبتیں بھی بعض اوقات اسے انسانیت سے بہت دور لے جاتی ہیں۔ کچھ انسانی اوصاف ایسے ہو تے ہیں جنہیں بظاہر ’’مثبت اوصاف‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسے وطن پرستی ، قوم پرستی ، مذہب پرستی اور خاندان پرستی وغیرہ لیکن یہ اوصاف اگر ایک خاص حد سے بڑھ جائیں اور اُن میں ’’انسان دوستی ‘‘ ختم ہو جائے تو وہ مثبت کی بجائے منفی ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اور محور ’’انسان دوستی‘‘ ہی ہے۔ جو پوری انسانیت کی بقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ خاندان ، زبان ، قوم ، مذہب اور وطن کی محبت اس حد تک مثبت اور جائز ہے جب اس میں دوسرے انسانوں کے حقوق پامال نہیں ہوتے۔ لیکن جب یہ ’’محبت‘‘ دوسرے انسانوں کی حق تلفی کا روپ دھار لیتی ہے تو پھر محبت نہیں نفرت بن جاتی ہے جو بعض اوقات خوفناک جنگوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ انسانی تاریخ میں اپنے ذاتی یا قومی بالادستی کے مفادات کے حصول کے لئے جتنی جنگیں بھی ہوئی ہیں ان میں جارح اقوام نے وطن ، قوم ، مذہب اور بعض اوقات انسانیت کی محبت کا جواز بیان کیا ہے لیکن کسی بھی قسم کی جارحیّت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی انسانی تباہی کا تعلق انسانیت سے محبت کے ساتھ جوڑنا ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں۔ دراصل انسان نے اپنے ہر طرح کے بُرے مفادات کے حصول کے لئے خوبصورت لفظوں کے ماسک پہن لیاہے تاکہ وہ اپنی برائی کو اچھائی ثابت کر سکے ۔ ابھی ماضی قریب میں امریکہ نے انسانیت کو مہلک ہتھیاروں سے بچانے کے لئے عراق پر جو تباہی نازل کی جس کے نتیجے میں گزشتہ دس سالوں سے پورا مشرقِ وسطیٰ خون میں نہا رہا ہے یہ اس دورخی پالیسی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ حالانکہ عراق سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارتو کیا کوئی سوئی تک برآمد نہیں ہوئی۔ اس سے انسانیت محفوظ ہونے کی بجائے اتنے خطرات میں گھرِ گئی ہے کہ اس کا وجود ہی عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے۔ وطن پرستی اور قوم پرستی کی ایک ’’ عبرت ناک ‘‘ مثال جرمنی کے فاشسٹ حکمران ہٹلر کی وہ فوجی کارروائیاں ہیں جو اس نے عظیم تر جرمن قوم کے نام پر شروع کیں جنہوں نے پوری دنیا کو جنگِ عظیم دوم کی آگ میں جھونک دیا جس سے کروڑوں انسان بُری طرح متاثر ہوئے۔ جس دوران امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے ، لاکھوں لوگوں کو ہلاک کردیا، شہر تباہ ہو گئے اور انسانیت بین کرتی رہ گئی۔ اس جنگ نے ہٹلر کی عظیم آریائی جرمن قوم کی بنیادیں بھی ہلا کر رکھ دیں اور جرمنی اپنی تاریخ کی خوفناک تباہی سے دوچار ہو کر دوحصّوں میں تقسیم ہوگیا۔ کسی وقت جرمن قوم کا عظیم ہیرو ہٹلر آج اسی قوم کے لئے ’’گالی‘‘ بن چکا ہے اور جرمنی کے عوام اس کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے ۔ ایسے ہی طالع آزماآج بھی وطن ، قوم اور مذہب کے نام پر ’’انسانیت ‘‘کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا آج جس طرح مذہبی ، علاقائی اور نسلی تضادات میں تقسیم ہو چکی ہے وہ کسی بڑے خطرے سے خالی نہیں۔ درحقیقت غیر منصفانہ اور ظالمانہ معاشی نظام ہی ہر طرح کی ’’انسانی تقسیم ‘‘ کا باعث بنتا ہے اور طاقتور قومیں اس نظام کو برقرار رکھنے کے لئے انسانوں میں مختلف تقسیموں کا زہر پھیلاتی رہتی ہیں ۔ کچھ ’’ منفی تقسیمیں‘‘ اس قسم کے ظالمانہ نظام کے ردّ ِ عمل کے طور پر جنم لیتی ہیں لیکن بالآخر خود بھی انسانیت کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہیں۔ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو دنیا میں انسانوں کی ایک ہی تقسیم ایسی ہے جسے ’’ مثبت تقسیم ‘‘ کہا جا سکتا ہے جو انسانوں کو توڑ نے کی بجائے جوڑنے کا کام کرتی ہے اور وہ ہے ظالم اور مظلوم کی تقسیم یا اچھے اور بُرے انسانوں کی تقسیم ۔ باقی رنگ ، نسل ، وطن اور مذہب کے نام پر کی جانے والی تقسیمیں انسانوں کو جوڑنے کی بجائے توڑ دیتی ہیں اور یہ ظالم طبقوں کی طرف سے دانستہ پھیلائی جاتی ہیں تاکہ دنیا بھر کے مظلوموں کوجو ظالموں کے مقابلے میں بہت بڑی اکثریت میں ہیں منتشر اور کمزور کیا جا سکے جن کا اتحاد ظالموں کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ جہاں تک ظالم اور مظلوم طبقوں کی عالمگیریت کا تعلق ہے تو یہ دنیا کے ہر خطّے ، ہر ملک ، ہر نسل اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور دونوں طبقوں کے مفادات اور مسائل بھی ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ حالیہ دور میں مذہبی تقسیم انسانیت کے وجود کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ حالانکہ جنگ و جدل دنیا کے ہر مذہب میںآخر ی آپشن کے طور پر روا رکھی گئی ہے اور وہ بھی صرف دفاع کے نقطہ نظر سے ۔۔۔ کیونکہ مذہبی نظریے کے مطابق تخلیق ِ آدم کے وقت شیطان نے انسان کے ممکنہ ’’فساد‘‘ یعنی جنگ و جدل کو ہی بنیاد بنا کر اسکی مخالفت کی تھی۔ اور ربّ ِ کائنات نے کہا تھا کہ جو میرا حکم ماننے والا ہوگا ۔وہ فساد کرنے والا نہیں امن قائم کرنے والا ہوگا۔ اسی لئے ’’مومن ‘‘ ہونے کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا گیا جس کا لغوی مطلب ہے ’’ امن قائم کرنے والا‘‘ ۔ یہی وہ پیغام تھا جو دنیا کے تمام مذاہب کے ذریعے پیغمبروں نے انسانوں کو پہنچایا۔ او ر یہی پیغام تھا جس کے لئے تمام مذاہب کے صوفیا و سنت اور ولی اللہ عمر بھر کوشاں رہے۔ آج ہم جو اپنے مذہب کے اندر فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا شکار ہیں ۔ یہ ہمارے ہی میاں میر جیسے بزرگ تھے جنہوں نے سکھوں کی سب سے متبرک عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھ کر مذہبی بھائی چارے کا پیغام دیا تھا۔ لیکن سیاست کے سینے میں دل اور لطیفِ جذبات نہیں ہوتے ۔ جب وطن ، نسل اور مذہب کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر یہ سب اختلافات جو محض انسان کی ’’شناخت ‘‘ کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ نفرت کے سب سے بڑے ہتھیار بن جاتے ہیں۔ انسانیت کو بچانے کے لئے ہمیں ہر محبت میں ’’انسان دوستی ‘‘ کو مقدم رکھنا ہوگا کیونکہ
ہندو میرا دشمن ہے نہ کوئی سکھ عیسائی
میرا دشمن ظالم ہے وہ چاہے میرا بھائی
انسانوں کی سب تقسیمیں ، جُز ظالم مظلوم بے
معنی سی لگتی ہیں جب بات سمجھ میں آئی



.
تازہ ترین