• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاںایسی سیاسی یا سماجی تقریبات کم کم ہی ہوتی ہیں جن کا تعلق علم و ادب یا دانش و حکمت کے شعبے سے ہو۔ شاید اسکی وجہ یہ بھی ہو کہ علم و ادب کی سر پرستی دور حاضر میں کوئی زیادہ منافع بخش یا پر کشش کام نہیں سمجھا جاتا۔ کہنے کو کئی ادارے موجود ہیں اور ان اداروں کا بنیادی فریضہ بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ اہل علم و ادب اورا ہل فن کی سر پرستی کریں ۔ لیکن عملا ان اداروں کا کردار کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی کھیل تماشے میڈیا پر بھی حاوی ہو گئے ہیں لہٰذا کسی کی توجہ نہ اہل فن کی طرف جاتی ہے نہ علم و ادب کے کسی دوسرے شعبے کی طرف۔ اس ماحول میں اکادمی ادبیات (جسے ہم اکیڈمی آف لیٹرز کے طور پر بھی جانتے ہیں)کی طرف سے اہل قلم کی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد خوشگوار ہوا کا جھونکا تھا۔ یہ کانفرنس 5 جنوری سے 8 جنوری تک اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس میں ایک درجن سے زائد بیرون ملک سے آئے اہل قلم کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں سے آنے والے پانچ سو سے زائد اہل علم و ادب نے شرکت کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بعض انتہائی اہم باتوں کی جانب توجہ دلائی۔ انکا سب سے اہم نکتہ تو یہ تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسی بیماریوں کے مکمل خاتمے کے لئے ضرب عضب کیساتھ ساتھ ضرب قلم کی بھی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادیب اور شاعر محبتوں کو عام کرتے اور دوریاں مٹاتے ہیں۔ ان کا پیغام محبت اورانسانیت کا پیغام ہوتا ہے۔ وہ محبت اور غمگساری کا پیغام دیتے ہیں۔ لہٰذا جن معاشروں میں شعر و ادب کے پھول کھل رہے ہوں، وہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو کوئی جگہ نہیں ملتی۔ دوسرا نکتہ وزیر اعظم نے یہ بیان کیا کہ ہمارے رویے کرخت ہو رہے ہیں۔ ہم باہمی محبت اور ہمدردی پیدا کرنے والے الفاظ بھولتے جا رہے ہیں۔ اس لئے ادیبوں اور شاعروں کو چاہئے کہ معاشرے کو پھر سے اعتدال کی طرف لائیں۔ تاکہ ہمارے اندر تحمل ،برداشت اور مکالمے کا رجحان پرورش پا سکے۔
اکادمی ادبیات ملک کے بہت سے دیگر علمی ، ادبی اور تحقیقی اداروں میں سے ایک ہے۔عام طور پر ہمارے ہاں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ علمی و ادبی تقریبات میں اعلیٰ ترین حکومتی شخصیات شریک ہوں۔ وجہ یہ کہ اس قسم کی سرگرمیاں کبھی بھی صاحبان اقتدار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتیں۔ یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف اور اختتامی اجلاس میں صدر ممنون حسین تشریف لائے ۔حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں شخصیات کی شرکت عرفان صدیقی صاحب کی خصوصی کاوش سے ممکن ہوئی۔ صدیقی صاحب وزیر اعظم کے مشیر ہونے کیساتھ ساتھ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے وفاقی وزیر بھی ہیں۔ انہیں اپنے ڈویژن کا چارج سنبھالے ایک سال کا عرصہ ہی ہوا ہے۔
چند دن پہلے نامور ادیب اصغر ندیم سید نے پی ٹی وی میں ایک نشست کے دوران فرمایا کہ جب سے عرفان صدیقی صاحب نے اس وزارت کی سربراہی سنبھالی ہے ان علمی و ادبی اداروں میں تحرک دکھائی دیتا ہے اور انکی ذاتی محنت اور کوشش سے یہ ادارے پھر سے سنبھلنے لگے ہیں۔ اکادمی ادبیات کے علاوہ نیشنل بک فاونڈیشن، ادارہ فروغ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ، ایوان اقبال، اقبال اکیڈمی، قائد اعظم اکیڈمی، اردو ڈکشنری بورڈ ، قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ، ڈپارٹمنٹ آف میوزیم اینڈ آرکیالوجی اور اسلام آباد کی نیشنل لائبریری بھی قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے زیراہتمام ہیں۔ ان اداروں کا ایک بڑا مسئلہ اہل اور صا حب صلاحیت سربراہوں کا تقرر تھا۔ طویل عرصے سے بیشتر ادارے بیوروکریسی کے افسران کے تحت چل رہے تھے۔ جسکی وجہ سے یہ اپنے بنیادی مقاصد سے بہت دور ہو گئے تھے۔ نہایت خوش آئند امر ہے کہ اب ایک انتہائی شفاف اور پر وقار سسٹم کے تحت ان اداروں میں با صلاحیت اور نامور اہل علم و دانش کی تقرریاں کی گئی ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان تقرریوں کے بعد یہ ادارے پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
اس ادبی کانفرنس میں وزیراعظم نواز شریف نے بعض اہم اعلانات بھی کیے۔ انہوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور اہل قلم کو درپیش مسائل کے حل کے لئے پچاس کروڑ روپے کے انڈومنٹ فنڈ کا اعلان کیا۔ مستحق ادیبوں اور شاعروں کے لئے ماہانہ وظیفے کی رقم پانچ ہزار سے بڑھا کر تیرہ ہزار روپے کردی۔ اس وظیفے سے مستفید ہونے والے افراد کی تعداد پانچ سو سے بڑھا کر ایک ہزار کر دی گئی۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے ادیبوں اور شاعروں کے لئے انشورنس کی رقم دگنی کی گئی ۔ اسی طرح اس اسکیم سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 354 سے بڑھا کر 700 کر دی گئی ہے۔ اس وقت ادیبوں اور شاعروں کو گیارہ قومی ایوارڈ دئیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ان ایوارڈز کی تعداد بیس کر دی۔ تاہم انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ کچھ ایوارڈز نوجوان ادیبوں اور شاعروں بالخصوص خواتین کیلئے وقف کر دئیے جائیں۔ وزیراعظم نے دس لاکھ روپے کے انتظار حسین ایوارڈ کا بھی اعلان کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کو خاص طور پر یاد رکھا۔ انہوں نے کہا کہ فنکار اپنے فن اور ہنر سے ہمارے لئے خوشی اور تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ مگر عمر کے ایک خاص حصے میں جا کر یہ کسمپرسی کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس علاج معالجے اور بعض اوقات روزی رزق کے وسائل بھی نہیں ہوتے ۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم نے عرفان صدیقی صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جو مختلف فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کے بارے میں جامع رپورٹ ایک ماہ کے اندر اندر وزیر اعظم صاحب کو پیش کرے گی ۔ توقع یہ ہے کہ اس ادبی کانفرنس میں ہونے والے اعلانات کے ثمرات کسی رکاوٹ کے بنا مستحق ادیبوں تک پہنچیں گے ۔ اسی طرح فنکاروں سے متعلق کمیٹی بھی جلد از جلد تجاویز مرتب کر ے گی اوراسکے بعد ان تجاویز پر عمل درآمد کا بھی موثر انتظام کیا جائے گا۔ تاکہ فنکاروں کے دیرینہ مسائل حل کئے جا سکیں۔



.
تازہ ترین