• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے قلمکاروں کو ضربِ قلم پہ کیا اُکسایا کہ سوشل میڈیا پہ دستِ قتل کو جھٹک دینے والوں کی خوب شامتِ اعمال شروع ہو گئی اور قلمی تکفیریوں نے ایک طوفان ہے کہ بپا کر دیا۔ ہمتِ کفر تو کسی کو کیا ملنی تھی اُلٹا جان کے لالے پڑ گئے۔ پاک سرزمین پہ سر اُٹھا کر چلنے والوں، جرأت تحقیق کی سعی کرنے والوں اور تکفیری دہشت گردوں کی ملامت کرنے والوں کو دن دیہاڑے دارالحکومت سے اُٹھا لیا گیا اور جانے وہ کہاں ایسے غائب کیے گئے کہ سراغ ملنے کے باوجود وزارتِ داخلہ کہیں اندھیروں میں گم ہو کے رہ گئی۔ اور محترم وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی راست قوتِ گویائی بھی اُن کے حلق میں پھنس کے رہ گئی۔ اُن کا ولولہ نظر آیا بھی تو فرقہ پرست خون خوار گروہوں کی صراحت میں۔ اور وہ بھی یہ جانتے ہوئے کہ اب دہشت گردی کی نئی لہر کے پیچھے متشدد فرقہ وارانہ قتال ہی وہ بڑا فتنہ ہے جو مسلم اُمہ اور پاکستانی سماج کے بخئے اُدھیڑ رہا ہے۔ ایسے میں ضربِ قلم کیسے ضربِ عضب کو دوام بخشنے لگی۔ البتہ چین پاکستان معاشی ترقی کی شاہراہ پہ رواں دواں میاں نواز شریف جانتے ہیں کہ اُنھیں کدھر جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ اُنھوں نے واشگاف الفاظ میں خود کو فقط مسلمانوں کا نہیں، تمام مذاہب کے ماننے والوں کا وزیراعظم ہونے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اور اس استقلال کا اظہار کیا بھی ہے تو ہندوئوں کے نہایت مقدس مقام کٹاس راج کی تزئین و آرائش کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے۔ بابری مسجد کے انہدام کے جواب میں پاکستان میں درجنوں مندروں کی بربادی تو ہندتوا نفرت انگیزی کا جواب نہیں تھی، بلکہ کٹاس راج کی تعمیرِ نو سے ہی سومنات کے مندروں کی لوٹ مار کے تاریخی زخم بھرے جا سکتے ہیں۔ اور اگر وزیراعظم بابا گورو نانک کے جنم استھان، ننکانہ صاحب اور حسن ابدال کے سکھوں کے مقدس مقامات کی ویسے ہی آرائش کر دیں جیسے امرت سر میں دربار صاحب کی کی گئی ہے تو دیکھئے مذہبی رواداری اور مذہبی سیاحت کو کتنا فروغ ملتا ہے۔ کروڑوں ہندو عبادت کے لئے کٹاس راج آئیں گے اور لاکھوں سکھ اپنے مقدس مقامات پہ ماتھا ٹیکنے کو بیتاب ہوں گے۔ ترقی کی معاشی شاہراہ جو چین کے تعاون سے تعمیر کی جا رہی ہے، اُس نے نہ صرف بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک کو جوڑنا ہے وہاں اپنی شاہراہوں پہ واقع مقاماتِ مقدسہ اور حسین و جمیل وادیوں کے طواف کو کروڑوں لوگ چلے آئیں گے۔ پھر دیکھئے کشمیریوں کے زخم بھرنے کو کتنے ہندوستانی سامنے آتے ہیں۔
تخریب اور دہشت گردی کی خون آشام دہائیوں کے بعد آخر فرقہ وارانہ ہم آہنگی، رواداری اور انسانی بھائی چارے نے جنم لینا ہی ہے، اور اس کے لئے ضربِ قلم، ضربِ عضب سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ خطے کے ملکوں اور اُن کے مابین امن و آشتی پیدا نہیں ہو سکتی اگر تنگ نظر مذہبی قوتوں کو تشدد اور تعصب سے باز نہیں کیا جاتا۔ بجائے اس کے کہ ریاست اور اس کے آہنی ادارے دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں پہ زمین تنگ کریں، وہ کیوں ان لوگوں کے در پے ہیں جو خارجیوں اور تکفیریوں کی ہجو لکھتے ہیں۔ یہاں کسی بھی اُس شخص کے لئے رعایت برتنے کی کوتاہ اندیشی مقصود نہیں جو کسی بھی طرح سے توہین کا مرتکب ہے۔ ایسے گستاخ درحقیقت فرقہ پرست دہشت گردوں کے مرغوب مشغلے کا ترنوالہ ہیں۔ لیکن کوئی دہشت گرد ہے، فرقہ پرست ہے، تکفیری ہے، خارجی ہے یا پھر کوہڑی گستاخ، سب کو قانون کے مطابق جزا و سزا کا مستحق ہونا چاہئے نہ کہ یہ ریاست یا شدت پسند گروہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود سے جلاد بننے نکل کھڑے ہوں۔ اس کی کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا نہ ہی ہمارے پیارے آخری نبی کالی کمبلی والے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی گستاخ یا خارجی کے ساتھ ایسا کیا تھا۔ شہریوں کو لاپتہ کرنا یا شدت پسندوں کی جانب سے قاتلوں کو غازی اور مقتولوں کو جہنمی قرار دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ریاست کے آہنی ہاتھ ہی قانون کو پامال کرنے چل نکلے تو آئین و قانون اور قومی ریاست کو پامال کرنے والے داعش اور اس نوع کے دوسرے فتنہ پرستوں کو کون قابو میں لائے گا۔ ضربِ قلم کی اشد ضرورت ہے بشرطیکہ ضربِ عضب بھی نئے جمہوری و انسانی اور مہذب بیانیے کے ساتھ قدم ملا کر چلے۔ ورنہ وہ معاملہ ہوگا جسے کہتے ہیں اُلٹے بانس بریلی کو!
وزیراعظم نے تو ضربِ قلم کی سفید جھنڈی دکھا دی ہے تو پھر یہ سیاہ جھنڈی کون لہرا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے تمام شہریوں کے بلا مذہبی تفریق لیڈر ہونے کا دعویٰ دراصل قائداعظم کی 11۔ اگست 1947ء کی تقریر ہی کی بازگشت ہے۔ قائداعظم نے آئین ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اسی عہد کا اعلان کیا تھا کہ ہر شہری کو اپنے اپنے مذہب کا پیرو ہونے کا حق ہے اور اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس سے شہریوں کے حقوق پہ کوئی اثر پڑتا ہے کہ سب شہری بلاامتیاز مذہب یکساں حقوق کے حامل ہیں۔ وزیراعظم کے اس عزم کی حمایت میں کوئی نکلا بھی تو سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی یا پھر پیپلز پارٹی کے سینیٹر جناب فرحت اللہ بابر۔ سینیٹ ہی میدان میں اُتری ہے کہ غیرمرئی اغواکاروں کو لگام دی جائے اور مغویوں کو برآمد کیا جائے۔ ’’اغوا کرو، مارو اور پھینک دو‘‘ کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا، لیکن کون بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں شہادتیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ جسٹس قاضی عیسیٰ کے عدالتی کمیشن نے کوئٹہ میں وکلابرادری کے قتلِ عام پر جو رپورٹ پیش کی، غضب خدا کا، اُسے ہمارے وزیرِ داخلہ نے اُٹھا کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اب جبکہ ’’اغوا کرو اور غائب کر دو‘‘ کا یہ کام اسلام آباد میں بھی تواتر سے ہونے لگا ہے تو خون تو جلادوں کے مسکن کا سراغ لگانے سے باز آنے سے رہا۔
موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے دو ایسے عدالتی کمیشنوں کی سربراہی کی جو غائب کیے گئے شہریوں اور ایک صحافی سلیم شاہد کے حوالے سے قائم کیے گئے تھے۔ وہ دونوں کمیشن اغواکاروں کا تو پتہ نہ لگا پائے۔ البتہ ان دو رپورٹوں میں سرکاری اغواکاری کے کاروبار کو قابو کرنے کے لئے بہت ہی دُور رس تجاویز دی گئی تھیں جن پر اگر عمل کیا جاتا تو پاکستان پر اپنے ہی شہریوں کے اغوا کا دھبہ لگتا اور نہ عالمی احتجاج ہوتا۔ کیا چیف جسٹس آف پاکستان کو تینوں کمیشنوں کی رپورٹوں پر از خود نوٹس نہیں لینا چاہئے۔ یا پھر سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی جو اس معاملے میں کافی مضطرب ہیں، حکومتی اداروں کو طلب نہیں کر سکتے۔ تکفیر اور توہین کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو اب کھل کر پوزیشن لینے کی ضرورت ہے۔ اور ایسے فیصلے، اقدام اور قوانین بنانے چاہئیں کہ کوئی کسی کی تکفیر کر سکے اور نہ کوئی توہین کا مرتکب ہو۔ تکفیر اور توہین گھڑنے کی فیکٹریاں اب بند کر دینی ہوں گی وگرنہ فساد فی سبیل اللہ فی الارض پھیلانے کے لئے اب تو وہ بھی میدان میں آگے آگے ہیں جو کبھی اولیا کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے خون خرابے سے دور رہتے تھے ۔ اولیا کا فیضان پھیلانے والے جانے کیوں خارجیوں اور تکفیریوں کی راہ پہ چل نکلے۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، لیکن کڑوے خربوزے کا نہیں۔ ہم نے اپنے دین کا کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ بس اللہ کی پناہ اور حضور کا صدقہ! داتا بھیک ملے نظرِ کرم کی اور محفوظ رکھے شر سے۔ ضربِ قلم ہو اور تیز کہ قلمی تکفیر ختم ہو اور چل پڑیں شاہراہِ یکجہتی پر! وما علینا الا البلاغ!



.
تازہ ترین