• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اغواہونے والے سوشل میڈیا کارکنوں، جن پر منظرِ عام سے غائب کر دینے کے بعد وطن دشمنی اور اسلام کی مخالفت کے الزامات لگائے گئے اور حکومت کے اندھے یقین کہ فوجی عدالتیں انتہائی اچھوتا تصور ہیں اور ان کی ہر حالت میں حفاظت کی جانی چاہئے، میں کیا قدر مشترک ہے؟ پیغام یہ گیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اور شخص آزادی کا حق طاقتور افراداور اداروں کی مرضی کے تابع ہے۔ یہ افراد اور ادارے گمان کرتے ہیں کہ ریاست کے بیانیے کا تعین کرنا اُن کاہی قطعی استحقاق ہے۔
دوسری طرف قانون کی حکمرانی کا تصور یہ ہے کہ ریاست میں کوئی بھی حتمی طاقت نہیں رکھتا، اور یہ کہ شہریوں پر اُن کے نام پر چلائے جانے والے اداروں اور افراد کی من مانی کی بجائے قانون میں درج طریقِ کار کے مطابق حکومت کی جائے گی۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ریاست کے افسران کے پاس طاقت لامحدود نہیں، نیز اُنہیں اس طاقت کے ناجائز استعمال سے روکنے کیلئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے۔ آئین ریاست اور شہریوں کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کانام ہے۔ اس کے ذریعے شہری اپنی اجتماعی طاقت کو ریاستی افسران کو تفویض کرتے ہیں جو اُنہیں قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔
چاہے یہ مارشل لا ہو یا شہریوں کی جبری گم شدگی (اغوا کا مہذب نام)، دونوں کے پیچھے نیشنل سکیورٹی اور قومی مفاد کی مبہم تفہیم اور اس پر حتمی اتھارٹی کے زعم کی کارفرمائی ہے۔ اس زعم میں مبتلا کچھ ادارے نہ صرف مقدس گائے سمجھے جاتے ہیں بلکہ ان میں کام کرنے والے افراد کے بارے میں یقین دلایا جاتا ہے کہ اُن کے افعال وسیع تر قومی مفاد میں ہیں، چاہے وہ آئین کی کھلی خلاف ورزی اور شہریوں کے حقوق کی پامالی ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ’گمشدہ افراد‘ کا معاملہ پھیلتا گیا تو ہمیں بتایا گیا کہ ایسے کچھ اقدامات درکار ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے وجود کے دشمن دہشت گردی اور غداری کے الزامات سے بری ہو رہے تھے کیوںکہ عدالتیں خوفزدہ اور قانونی نظام ایجنسیوں کو انٹیلی جنس حاصل کرنے اوران کی حاصل کردہ معلومات کو ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا تھا۔ نیز انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کریمنل جسٹس سسٹم کی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہتی تھیں۔ تاہم سسٹم ’’زمینی حقائق‘‘ کو دیکھتے ہوئے سسٹم میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو گرفتار کرکے سزا دی جاسکے۔
کافی سوچ بچار کے بعد ہمارے سول اور ملٹری ادارے اس نادر نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے قانونی نظام میں کچھ ناگزیر چیزیں اس طرح ملائی جائیں کہ مشکوک افراد کے درمیان فرق مزید مبہم ہو جائے۔ اس غیر معمولی سوچ کے نتیجے میں ہم نے’’ریگولیشنز فار فاٹا اینڈ پاٹا (PATA)‘‘، کو وجود میں آتے دیکھا۔ اس کے بعد اینٹی ٹریر ایکٹ، فئیر ٹرائل ایکٹ اور پھر پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کو تخلیق ہوتے دیکھے۔ ان اقدامات کے ذریعے ریاست نے اپنے سسٹم میں اتنی لچک پیدا کرلی جس میں اس کے اہل کار من مانی کرسکیں۔ یہ ہماری حالیہ تاریخ کی ’’کریمنل جسٹس سسٹم کی حدود میں رہ کام کرنے کا تجربہ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ تجربہ مختصر ثابت ہوا۔ اس دوران ’زمینی حقائق‘ سے عہدہ برا ہونے والے عناصر کی فعالیت دکھائی نہ دی۔ لیکن چونکہ قومی سلامتی کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا ہے، اس لئے لوگ گم ہونے لگے۔ عین جس وقت ہم سوچ رہ تھے کہ ہم نے اپنے اداروں کو تقویت دی ہے اور ہماری ایجنسیاں ہماری دشمنوں پر ہاتھ ڈال رہی ہیں، اور اُنہیں قانون کی حدود میں رہتے ہوئے سزا ئیں دے رہی ہیں، تو اُس وقت آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ ہو گیا۔ شدید صدمے اور غم کے عالم میں ڈوبی ہوئی قوم کو بتایا گیا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کام نہیں کر رہا، چنانچہ حالتِ جنگ میں ہمیں فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔دو سال تک فوجی عدالتوں کو فعال رہنے اور سزائے موت سنانے کے باوجود ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا کہ ان کی وجہ سے دہشت گرد خائف ہو گئے ہوں، یا ایک خود کش بمبار، جو مرنے نکلا ہے، محض پھانسی سے ڈر کر خود کو دھماکے سے اُڑانے سے باز رہے۔ اس سے بھی اہم یہ کہ نئے اور ترمیم شدہ قوانین کے ذریعے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو دئیے گئے تمام تر اختیارات اور فوجی عدالتوں کے باجود شہری ابھی بھی گم ہو رہے ہیں۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ تو کیا پہلی تفتیش ہی غلط تھی؟ کیا معاملہ صرف قوانین کے ناکافی ہونے کا نہیں تھا؟ فوجی عدالتیں ہمیں کیوں بھاتی ہیں؟ کیا ہم انہیں موثر اور فعال نہیں سمجھتے؟ کیا یہ بات نہیں کہی جاتی کہ جب فوجی افسران جج اور استغاثہ کے طور پر کام کرتے ہیں تو وہ نہ منظرِ عام پر آتے ہیں اور نہ ہی خائف ہوتے ہیں؟ نیز کیسز کا فیصلہ بر وقت ہو جاتا ہے۔ چلیں ان کے فعالیت کے ڈھانچے کی خرابیوں کو بھول جائیں کہ ایک ادارہ ہی پولیس، تفتش کار، جج اور جلاد کے فرائض دے رہا ہے، لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ ان کے سزا سنانے کیلئے کس قسم کی شہادت پیش کی تھی؟ کیا کسی گواہ کو پیش کیا گیا؟ کیا ملزم کو ا پنا دفاع کرنے کیلئے کسی وکیل کی سہولت فراہم کی گئی؟
فوجی عدالتوں میں حقیقی کشش یہ ہے کہ اُنہیں اپنے فیصلوں کی وجوہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقدمہ عوام کے سامنے نہیں چلایا جاتا اور عدالت کی دی گئی رولنگ کی جانچ نہیں ہو پاتی۔ کوئی ملزموں کی کہانیاں نہیں سن پاتا کہ اُنھوں نے کیا کیا اور ایسا کیوں کیا؟ فیصلوں پر کوئی بحث نہیں ہوتی کہ کیا یہ عدالتیں شہریوں کو سزائے موت سناتے ہوئے انتہائی احتیاط اور عرق ریزی کا مظاہرہ کر رہی ہیں یا نہیں؟ وہ کسی کو اجازت نہیں دیتیں کہ وہ اخلاقی اور پالیسی کے معاملات پر بات کر سکے، اور یہ وہی پالیسی اور اخلاقی ایشوز ہیں جو معاشرے میں انتہا پسندی کے ذرائع، جو دہشت گردی کی سپلائی چین ہے، کا تحفظ کرتے ہیں۔ جس دوران فوجی عدالتوں کو قانون کا لبادہ پہنایا گیا تو جو دلائل سننے کو ملے، وہ وہی تھے جو اب ان ’’گمشدگیوں‘‘ کے موقع پر ارزاں کیے جارہے ہیں۔ دونوں دلائل کا محور یہ نکتہ ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اتنے ٹھوس نہیں ہوتے کہ انہیں درپیش چیلنجز، جیسا کہ دہشت گردی، کی صورت میں برہم نہ کیا جاسکے۔ دونوں دلائل اس تصور کو تقویت دیتے ہیں کہ وسیع تر عوامی مفاد میں ریاست مخالف سرگرمیوں کو قانونی طریقِ کار اختیار کیے بغیر کچلا جا سکتا ہے۔ دونوں سے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ ریاست کے اہلکار اپنی مرضی سے، کسی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر، شہریوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرتے ہوئے ایک طرح کی آسمانی طاقت ہونے کا زعم رکھتے ہیں۔ دونوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانی آزادی کوئی بنیادی حق نہیں، بلکہ ایک سہولت ہے جو موقع کی مناسبت سے واپس بھی لی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کے کچھ الفاظ یا افعال ریاست کے افسران کی منشا کے مطابق نہ ہوں تو آپ کی سہولت ختم۔
جنگل میں کوئی اخلاقی یا قانونی ضابطہ مستعمل نہیں ہوتا۔ وہاں واحد اصول اپنا بچائو کرنے کیلئے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے۔ زندہ رہنے کیلئے آپ کو مناسب الائنس میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
آپ طاقتور کو برہم کرنے کی کوشش کرکے اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالتے اور نہ ہی اپنے سے زیادہ طاقتور سے الجھتے ہیں۔ پھر آپ غیر ضروری خطرات بھی مول نہیں لیتے اور نہ ہی اصول طے کرنے کیلئے کسی اور کی جنگ کی لڑتے ہیں۔ جنگل میں ایک جانور کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس سے لڑنا ہے اور کس سے گریز کرنا ہے؟ اہم افراد کے نظام کو تسلیم کرنا ہی تہذیب کی بنیاد ہے۔ جو اس نظام کو تسلیم کرتے، اُنہیں’’مثال‘‘ بنا کر دوسروں کو تہذیب یافتہ بنایا جاتا ہے۔ ہم قانون کی حکمرانی رکھنے والا معاشرہ نہیں۔ ہم ایک جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں ہم نے امن سے رہنا سیکھنا ہے۔ گزشتہ ہفتے سلمان حیدر کانام میڈیا کی زنیت بنا۔ ہم میں سے زیادہ تر نے گم ہونے والے دیگر سوشل میڈیا کارکنوں کے بارے میں کچھ نہیں سنا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ انہیں ’’مثال‘‘ بنا کر دیگر کو اس راہ پر چلنے سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اُنھوں نے کیا کیا تھا، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اُنھوں نے اُن افراد کو ناراض ضرور کیا ہوگا جو قومی مفاد کا تعین کرتے ہیں۔ اور یقیناً ہمارا قومی مفاد مانیٹر کرنے والا نظام غفلت یا سستی کاشکار ہرگز نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا کارکنوں کے اغوا سے اس کے علاوہ کیا پیغام دیا گیا ہے کہ شہری طاقت کے نظام کو تسلیم کریں؟ ہم میں سے جو سوچتے تھے کہ ہم اپنی پرائیویسی میں رہتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا میں اپنی رائے کا بلاروک ٹوک اظہار کرسکتے ہیں، غلطی پر تھے۔ یہ بات علی اعلان بتا دی گئی ہے کہ آج کے بعد اس ڈیجٹیل دنیا پر بھی جنگل کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ فی الحال یہ اغوا سخت اقدامات دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے دیگر افراد کو سبق ملے گا اور اپنے سوشل میڈیا پیغامات کوخود ہی سنسر کرلیا کریں گے۔ کون کہتا ہے کہ یہ اقدام وسیع تر قومی مفاد کیلئے ضروری نہ تھا؟

.
تازہ ترین