• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں ہمیں اپنے ذاتی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا، وہاں کا موسم اپنے پورے جوبن پر تھا دھند ایسی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے سردی کا مزہ وہیں آیا۔ ہمارے میزبان ہمیں دوپہر کے کھانے پر ایک مشہور ہوٹل پر لے گئے کھانے کا آرڈر دینے سے پہلے ہم سے پوچھا آپ کیا کھانا پسند کریں گے ہم نے کہا اس شہر کی مشہور ڈش یہاں کا چرغہ ہے وہی منگا لیجیے وہ ایک دم سنجیدہ ہوگئے نہیں نہیں آپ نہیں کھا سکیں گے کچھ اور منگا لیتے ہیں ہم نے کہا پھر آپ جو اچھا کھانا سمجھتے ہیں وہی منگا لیجیے یہ چرغے کو آپ کیوں منع کر رہے ہیں بولے کھانا کھا لیجیے پھر تفصیل سے بتا دوں گا کھانے سے فارغ ہو کر جب ہم باہر نکلنے لگے تو ہمارے میزبان نے چلتے چلتے ہوٹل کے کائونٹر پر بیٹھے ہوٹل کے منتظم سے دریافت کیا کہ آپ کے یہاں دن بھر میں کتنے چرغے بک جاتے ہیں انہوں نے فوری طور پر جواب دیا پانچ چھ سو تو عام طور پر نکل ہی جاتے ہیں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں بس ایسے ہی پوچھ لیا یہ کہتے ہوئے ہم باہر نکل آئے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد انہوں نے کہا قریشی صاحب میں آپ کے سوال کا جواب دینے کے لئے آپ کو مرغی مارکیٹ لے چلتا ہوں آپ کے سوال کا درست جواب آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کچھ دیر کئی سڑکوں کے چکر کاٹ کر وہ مرغی مارکیٹ پہنچ گئے گاڑی سے اترنے سے پہلے انہوں نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور مجھے بھی رومال نکالنے کی ہدایت کی اور اپنے رومال اور میرے رومال پر پرفیوم کا اسپرے کر کے فرمایا اسے اپنی ناک پر رکھ لیجیے ورنہ آپ کی طبیعت بگڑ سکتی ہے۔ جیسے ہی کار کا دروازہ کھلا کہیں دور سے ہوا میں شدید سڑاند کے بھبکے محسوس ہوئے کچھ دور پیدل چل کر جب ہم مرغی مارکیٹ کے قریب پہنچے تو یہ بھبکے شدید ہوگئے۔ وہ آگے بڑھتے رہے ایک جگہ رکے جہاں قصائی اپنے بغدے سے دھڑا دھڑ زندہ مرغیوں کے سر قلم کر رہا تھا اور ایک سائیڈ میں رکھے ایک گندے سے صندوق نما ڈبے میں پھینکتا جا رہا تھا ہمارے میزبان نے اس سے دریافت کیا پہلوان آپ مرغی ذبح نہیں کرتے۔ بائو جی اور کیا کر رہے ہیں آپ کے سامنے یہ اتنی ذبیح شدہ مرغیاں جو پڑی ہیں آپ اسے چھری سے ذبح کر کے تکبیر بسم اللہ، اللہ اکبر نہیں پڑھتے تو اس نے نہیں میں جواب دیا۔ بائو جی ہمیں شام تک دو ہزار مرغیوں کا گوشت سپلائی کرنا ہوتا ہے بس پہلی باری بسم اللہ پڑھ لیتے ہیں پھر اس نے تہبند سے دونوں ہاتھ پونچھ کر ہم سے سوال کردیا کہ آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں تو ہمارے میزبان نے کہا ہمارے دوست کراچی سے آئے ہیں انہیں بڑا شوق تھا کہ یہاں کے شہری اتنی مرغی اور مرغی کا گوشت کھاتے ہیں یہ کیسے اور کہاں سے دستیاب ہوتا ہے تو میں انہیں دکھانے کے لئے یہاں لے آیا ہوں آپ لوگ مرغی کو حلال کیوں نہیں کرتے جو طریقہ آپ استعمال کر رہے ہیں یہ طریقہ تو سکھوں والا ہے جھٹکے کا آپ تو مرغی کو ذبح کرنے کے بجائے جھٹکا کرتے ہیں سامنے والے کے تیور دیکھ کر ہم نے اپنے ساتھی کا بازو پکڑا اور وہاں سے نکلنے کی کوشش کی ہم اور آگے بڑھے تو جس طرح سے پہلے دکاندار کو مرغی ذبح یا جھٹکا کرتے دیکھا تقریباً سب جگہ وہی عمل ہوتے دیکھا۔ ایک دکاندارفارغ بیٹھے کرسی پر بڑے اطمینان سے سگریٹ نوش فرما رہے تھے ہمارے میزبان نے ان سے سلام دعا کی اور سامنے پڑی کرسی سنبھال لی اور ان سے حال احوال پوچھنے لگے پھر انہوں نے سوال کیا میاں جی ہر روز یہاں سے شہر کے ہوٹلوں اور تکہ شاپس کو کتنی مرغی سپلائی کی جاتی ہے تو انہوں نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لے کر دھواں چھوڑتے ہوئے بڑے فخر سے بتایا جناب ہوٹل اور تکہ شاپ کے علاوہ شادی بیاہ کی دعوتوں کے لئے بھی سارا گوشت یہیں سے جاتا ہے دوسرا سوال ہمارے ساتھی نے کیا کہ یہ گوشت جو اس مارکیٹ سے اہل لاہور کو سپلائی کیا جاتا ہے حلال ہوتا ہے وہ بڑی اونچی آواز میںبولے الحمدللہ حلال ہوتا ہے کیوں جناب آپ کو کیوں شک ہوا الحمدللہ اس مارکیٹ میں سارے کاریگر اور دکاندار مسلمان ہیں ہم حلال گوشت ہی بناتے اور بیچتے ہیں اس پر ہمارے ساتھی نے کہا ہم نے ابھی دیکھا ہے یہاں آپ کے کاریگر بغیر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھے دھڑا دھڑ بغدے کے ذریعے مرغیوں کا جھٹکا کر رہے ہیں اس پر وہ مسکرا کر فرمانے لگے آپ بھی بڑے بھولے بادشاہ ہو جناب پہلی مرغی پر تکبیر پڑھنے سے باقی اس کے زیر اثر ہوجاتی ہیں اگر ہر مرغی پرچھری پھیری جانے لگے تو ذرا حساب تو لگائیں کہ اس مارکیٹ سے ہر روز تقریباً پچاس ہزار مرغی شہریوں کو فراہم کی جاتی ہے اگر ہر مرغی کے ذبح پر آدھا منٹ ہی لگا لیں تو پچاس ہزار مرغیوں کو ذبح کرنے پر کم از کم پچیس ہزار منٹ لگیں گے یعنی چونتیس پینتیس دن تو نہ ہمارا کاروبار ہوگا اور نہ شہر والوں کو مرغی کا گوشت ہی مل سکتا ہے ہمارے یہاں ایک کاریگر ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ہزار پندرہ سو مرغی ذبح کرتا ہے جسے آپ جھٹکا کہہ رہے ہیں اگر ہر کاریگر جو ہزار مرغی کا گوشت بناتا ہے وہ ہر مرغی پر چھری پھیرنے لگے تو آدھا منٹ یا پائو منٹ تو ضرور خرچ ہوگا ہزار منٹ کا آدھا پانچ سو منٹ اور پانچ سو منٹ کے بھی ساڑھے آٹھ گھنٹے بنتے ہیں تو آپ خود سوچئے کہ پھر وہ کب گوشت بنائے گا کب سپلائی ہوسکے گا آپ کے بتائے طریقوں سے تو نہ ہمارا کاروبار اور نہ ہی تکہ شاپ اور ہوٹلوں کا کاروبار اور شادی بیاہ کی تقاریب کے لئے مرغی کا گوشت سپلائی ہوسکے گا ویسے بھی ہمارے سارے کھانے والے بھائی مسلمان ہیں اور وہ جب کھاناکھاتے ہیں تو بسم اللہ پڑھ کر ہی شروع کرتے ہیں اتنا کہہ کر وہ صاحب اٹھے اور ایک موٹی سی گالی دے کر اپنی کسی کارندے کو آواز دینے لگے اور اسے مادر پدر گالیوں سے نوازنے لگے ہم نے اپنے ساتھی سے کہا بھائی بس بہت ہوگیا آئیں چلتے ہیں دراصل وہ یہ سب گالیاں اپنے کارندے کو نہیں دے رہے ہیں اس سے پہلے کہ ان کی برداشت ختم ہوجائے یہاں سے نکل چلیں ہم اٹھ کر اپنی گاڑی کی طرف چل پڑے راستے میں بڑے بڑے عجیب تماشے دیکھنے کو ملے کہیں مرغیوں کی کھالوں سے پر علیحدہ کیے جا رہے تھے اور کھال کو قیمہ بنانے کے کام میں لایا جاتا ہے جس سے بقول ان صاحب کے تکہ شاپ والے ریشمی کباب بناتے ہیں غرض مرغی کی کوئی چیز بھی وہاں بے کار نہیں جاتی سب کچھ کار آمد بنا لیا جاتا ہے یہ اور بات کہ وہ حلال ہوتا بھی ہے یا نہیں مارکیٹ کے گرد و نواح کو دیکھ کر شہر پاکستانی پیرس کا نوحہ ہی نظر آئے کاش کبھی ہمارے حکام بذات خود بھی اس مرغی مارکیٹ کا دورہ کریں اللہ انہیں توفیق دے تاکہ عوام کو حلال مرغی کا گوشت دستیاب ہوسکے۔


.
تازہ ترین