• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا بھر میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اورمستقبل کے معمار طالب علموں کو تعلیم کے حصول میں سہولتیں دینے کے لئے حکومتیں باقاعدہ پالیسیاں مرتب کرکے اُن پر عمل درآمد بھی یقینی بناتی ہیں ، اس کی ایک مثال جاپان کے شمال میں واقع ایک جزیرہ ’’ہو قائیدو ‘‘ کا ’’ کامی شیراتاکی‘‘ نامی ریلوے اسٹیشن ہے ،یہ اسٹیشن 1اکتوبر 1932کو قائم ہوا تھا ،جاپان کے محکمہ ریلوے نے آج سے تین برس قبل اس اسٹیشن کو دور دراز ہونے اور اس روٹ پر مسافر نہ ہونے کی وجہ سے 25مارچ 2013 کوبند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انتظامیہ نے اپنا فیصلہ اس وقت تبدیل کر دیا جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک طالبہ حصول تعلیم کے لئے جس گاڑی پر سفر کرتی ہے وہ اسی اسٹیشن پر رُکتی ہے ، اس ویران اسٹیشن پر رکنے والی یہ ریل گاڑی اُس لڑکی کے کالج جانے کا واحد ذریعہ تھی،لہذا جاپانی ریلوے حکام نے اسٹیشن بند کرنے کی بجائے اُس لڑکی کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے دو ٹرینوں کا شیڈول لڑکی کے کالج جانے اور واپس آنے کے مطابق بنا دیا ۔ بعض اوقات طالبہ کا اسکول دیر سے بند ہوتا تو گاڑی کا ٹائم ٹیبل بھی اُسی حساب سے تبدیل کر دیا جاتا یہ فیصلہ اگرچہ جاپانی ریلویز کے لئے کافی مہنگا تھا مگر اس سے جاپان نے دُنیا بھر کی حکومتوں کے لئے ایک مثال قائم کر دی کہ فلاحی حکومت اپنے شہریوں کی ضروریات کا خیال کس طرح رکھتی ہے اور ریاست ایک بچے کی تعلیم کے لئے کس حد تک جا سکتی ہے مذکورہ طالبہ نے 24 مارچ 2016 تک اپنی تعلیم مکمل کی اور اس کے ایک دن بعد اسٹیشن ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ۔ چین کے ٹی وی چینل نے اس واقعہ کی ڈاکومنٹری فیس بک پیج پر شیئر کی تو لوگوں کے لکھے گئے تاثرات پڑھنے لائق تھے ایک شخص نے لکھا " مجھے یقین ہے کہ اپنی گزری اور آنے والی زندگی میں یہ بہترین چیز ہے جو میں نے دیکھی ہے' ' ایک اور شخص نے لکھا " میں ایسی ریاست کے لئے اپنی جان قربان کرنے سے کیوں کرگریز کرونگا ؟جو میری قوم کے بچوں کے مستقبل کے لئے اس حد تک جا سکتی ہے۔یہ واقعہ ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لئے اکسیر ثابت ہو سکتا ہے ، لیکن اِ س کے لئے ضمیر کا زندہ ہونا لازم ہے ۔ کچھ دن پہلے لاہور سے کراچی جانے والی ریل گاڑی ایک پھاٹک سے گزر رہی تھی تب ایک رکشہ ’’ چنگ چی ‘‘ اْس کی زد میں آ گیا،ٹرین کی اِس ٹکر سے اسکول جانے والے آٹھ بچے اللہ کو پیارے ہو گئے، حادثے میں چار طالب علم زخمی بھی ہوئے، جن کی عمریں پانچ سے آٹھ سال کے درمیان ہیں۔ میڈیا نے جب اِس ہولناک حادثے کے متعلق وزیر ریلوے سے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ پھاٹک کھلا ہوا تھا اور ’’سگنل اپ‘‘ تھا۔ اْن کے بقول ایسی صورت حال میں ریل گاڑی کو پھاٹک کراس نہیں کرنا چاہئے تھا، اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ’’ابھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ ریل گاڑی کے ڈرائیور کی غلطی ہے یا شدید دھند اس حادثے کی وجہ بنی‘‘یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صبح کے وقت شدید دھند میں رکشہ ڈرائیور جب پھاٹک عبور کر رہا تھا تو اْس دوران اُسے ریل گاڑی کی رفتار کو جانچنے میں غلطی ہوئی،وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ جس ریلوے کراسنگ پر یہ حادثہ پیش آیا وہاں تعینات دونوں ’’گیٹ کیپرز‘‘ کو تحویل میں لے کر اْن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔پاکستان میں اس سے قبل بھی بچوں کو اسکول لے جانے والی گاڑیوں یا رکشوں کو پھاٹک پر ریل گاڑیوں سے ٹکرانے کے حادثات رُونما ہو چکے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک کا نا ہونا ہے اور اکثر ان کی وجہ لائنوں اور سگنل نظام میں خرابی اور عملے کی غفلت بنتی ہے۔کمیٹیاں بنیں گی ،انکوائری ہوگی ، بچوں کے لواحقین کو تسلی تشفی دی جائے گی ، لیکن نہ تو وفات پانے والے بچے واپس آئیں گے اور نہ ہی ریلوے پھاٹک مضبوط کئے جائیں گے ۔کچھ دن پہلے ایک پاکستانی ٹرین ڈرائیور نے تازہ پکوڑے بنتے دیکھ کر ٹرین ایک گاؤں کے باہر روک لی تھی ،شاید اُس ڈرائیور نے سوچا تھا کہ جاپان والے اگر ایک طالبہ کے لئے ویرانے میں موجود اسٹیشن پر ٹرین روک سکتے ہیں تومیں پکوڑوں کے لئے ٹرین کیوں نہیں روک سکتا ؟ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ تعلیم کے فروغ اور طالب علموں کی سہولت کے لئے اُنہیں مراعات دے ، سڑکیں بنیں ، نئے پل تعمیر ہوں ، زرد ٹرین چلے یا میٹرو کی پاکستان میں ریل پیل ہو ، لیکن پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ بے یارومددگار پھاٹک محفوظ اور مضبوط بنائے ، چنگ چی چلانے والوں کے ڈرائیونگ لائسنس چیک کرے ،ہماری موجودہ حکومت کے سربراہان نے کئی سال جلا وطنی کی زندگی گزاری ، اس عرصہ میں بہت سے پاکستانیوں نے میاں برادران کا ساتھ دیا ،انگلینڈ میں مقیم زبیر گل اُن ساتھ دینے والوں میں پیش پیش نظر آئے ،جب میاں محمد نواز شریف پاکستان گئے اور انہیں ائیر پورٹ سے واپس کر دیا گیا تب وہ اپنے ساتھیوں سمیت سیکورٹی اہلکاروں سے اس بات پر لڑ رہا تھا کہ اُن کے قائدین کو پاکستان میں داخل کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا ،آج تک یہی سُنا تھا کہ میاں برادران اپنے محسنوں کو نہیں بھولتے ، زبیر گل کو بھی وفاقی کمشنربرائے اوورسیز پاکستانیز کے عہدے سے نوازا گیا،لیکن اختیارات کے بغیر ، نہ کوئی آفس اور نہ ہی کوئیفنڈ ،چند دن پہلے انگلینڈ میں زبیر گل پر قاتلانہ حملہ ہوا ، انہوںنے پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ حملہ کس نے کرایا ہے ، حملہ کرانے والے کا نام تک بتایا ، لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا ۔ جب تک مسلم لیگ کے اندر کارکنان کو انصاف نہیں ملے گا تب تک یہ تصور کرنا بھی گناہ کے مترادف ہے کہ پاکستانی طالب علموں سمیت ، قوم کو کسی قسم کاکوئی تحفظ یا انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے۔



.
تازہ ترین