• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دوسرے کے ازلی و ابدی دشمن شیخو اور واسکوڈے گاما کی ملاقات کی باتیں بعد میں، پہلے ذرا اِک نظر واسکوڈے گاما پر، صرف اچھے وقتوں کے ساتھی اور روزِ اول سے سازشوں کے ماہر واسکوڈے گاما کی چونکہ نظر بچپن سے ہی خراب، لہٰذا جسے بھی دیکھے خراب نظر سے ہی دیکھے، صحت پسماندہ ملکوں کی معیشت جیسی، دماغ ایساکہ ایک بار اسکول کے زمانے میں استاد نے پوچھا ’’ہوم ورک کیوں نہیں کرتے‘‘ بولا ’’سر ہوم ورک تو نوکر کرتے ہیں‘‘، انگریزی ایسی کہ مس گائیڈڈ میزائل کے معنی وہ میزائل جسے مس گائیڈ کرے اور Washingtonکا مطلب دھوبی گھاٹ، اردو اس طرح کی کہ ایک ٹیسٹ میں اس کے لکھے ہوئے چند جملے خود ہی پڑھ لیں:بال بال قرضے میں جکڑنا:احمد کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا لہٰذا یک دن اس نے بال ہی کٹوا دیئے، دانت کھٹے کرنا:اکبر نے اصغر کو املی کھلا کر اس کے دانت کھٹے کر دیئے، پانچوں انگلیاں گھی میں:شبانہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں کیونکہ اسے گھی نکالنے کیلئے چمچہ ہی نہیں ملا تھا اور کیچڑ اچھالنا، زین نے علی پر اتنا کیچڑ اچھالا کہ اس کے کپڑے ہی گندے ہو گئے، اس سے دسویں جماعت میں جب سوال کیا گیا کہ فحاشی کی تعریف کرو تو سینہ تان کر بولا’’ مرجاؤں گا مگر فحاشی کی تعریف نہیں کروں گا‘‘، کالج دور میں اس نے اپنی کلاس فیلو سے ٹیلی فون نمبر یوں مانگا کہ ’’محترمہ میں ٹیلی فون پر کتاب لکھ رہا ہوں، کیا مجھے آپ کا نمبر مل سکتا ہے‘‘، اس کے نزدیک سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے زیادہ خطرناک بیگم کی سالگرہ فراموشی، یہی کہے عاجزی اور انکساری بہت ہی اچھی چیزیں اگر یہ دوسروں میں ہوں، اس کا ماننا کہ محبوبہ کا بیوی ہونا ایسے ہی جیسے شعر کا نثر ہو جانا، اس کا مشاہدہ کہ جوں جوں بندے کی نظر کمزور ہوتی جاتی ہے، توں توں بیوی خوبصورت ہوتی جاتی ہے، اسی کا تجربہ کہ اندھے دو قسم کے ایک وہ جو دیکھ نہیں سکتے اور دوسرے وہ جو دیکھتے ہی نہیں، اسی کی اختراع کہ عورتیں حسین اس لئے کہ مرد انہیں پسند کریں اور بے وقوف اس لئے کہ وہ مردوں کو پسند کریں، اس کے دل کی آواز کہ مرد چہروں سے جتنے بے وقوف لگتے ہیں، اتنے ہوتے بھی ہیں اور عورتیں جتنی بے وقوف ہوتی ہیں اتنی چہروں سے نہیں لگتیں، اسی کی منطق کہ عورت کو جب مرد کی سمجھ نہ آئے تو وہ اس سے طلاق لے لیتی ہے اور مرد کو جب عورت کی سمجھ نہ آئے تو وہ اس سے شادی کر لیتا ہے، یہ کنجوس ایسا کہ بیوی کے موبائل پر میسج کیا ’’میں آج آدھا گھنٹہ گھر لیٹ آؤں گا اور اگر دیر زیادہ ہوگئی تو یہی میسج دوبارہ پڑھ لینا‘‘ اور وہی واسکوڈے گاما جسے سمجھانے سے زیادہ مشکل سمجھنا، جو عمر کے اس حصے میں کہ جہاں شادی شدہ ہونا غیر شادی شدہ ہونے سے زیادہ جان لیوا اور جسے ایک بار جب میں یہ کہہ بیٹھا کہ ہماری فلاں شاعرہ بہت قیمتی ہے تو یہ کئی دن تک قیمت پوچھتا رہا، اسی واسکوڈے گاما سے گزشتہ روز میں اور شیخو ملے تو چند رسمی جملوں کے بعد جب شیخو یہ کہہ بیٹھا کہ ’’بھائی ہمارے نزدیک حسین وہی ہے جو ہمارے نزدیک ہے‘‘، تو واسکوڈے گاما بولا آپ نے تو یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’خوبصورت رشتہ وہ جو کسی خوبصورت سے ہو‘‘ شیخو نے جوابی وار کیا ’’جی واقعی یہ میں نے ہی کہا، بس آپ سے تعلق بناتے وقت میں یہ نکتہ بھلا بیٹھا تھا‘‘ یہ سن کر واسکوڈے گاما بولا ’’اللہ آپ کی زبان، عمر اور حرص دراز کرے‘‘، پچھلے ہفتے آپ ایک وزیر کے بیٹے کی شادی پر نظر آئے حالانکہ آپ ہی کہا کرتے تھے کہ ’’میں کسی کی شادی پر نہیں جاؤں گا اور اگر گیا تو وہ کسی کی نہیں ہوگی‘‘ شیخو جھنجھلا کر بولا ’’آپ بھی کبھی اپنی بیان بازیوں پر غور کر لیا کریں، ابھی چند دن پہلے آپ کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ ’’میں حکومتِ وقت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ حالات کی سنگینی بتا رہی ہے کہ جنوری کے بعد فروری ضرور آئیگا‘‘، سگریٹ سلگاتا واسکوڈے گاما بڑے اطمینان سے بولا ’’جیسے مجھے کبھی یہ سمجھ نہ آئی کہ جہاں ٹرینوں نے لیٹ آنا ہوتا ہے وہاں ٹائم ٹیبل کی کیا تُک اور جہاں ٹرینیں وقت پر آرہی ہوں وہاں ویٹنگ رومز کا کیا مقصد، ایسے ہی مجھے کبھی آپ کے اس قول کی بھی سمجھ نہ آئی کہ پتنگ بازی سے نبض نارمل اور بلڈ پریشر ٹھیک رہتا ہے حالانکہ میرا تو یہ خیال کہ فی زمانہ اِردگرد کے گھروں میں تانک جھانک کیلئے پتنگ بازی سے زیادہ مفید طریقہ آج تک دریافت نہیں ہوا‘‘، یہ سن کر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھینک کر شیخو بولا ’’آپ نے صحیح فرمایا، واقعی آپ کے لئے تو پہلے دن سے ہی پتنگ بازی اِردگرد تانک جھانک کا ہی ذریعہ، کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد کہ جب پچھلی بسنت پر میں نے آپ کو زخمی ماتھے کے ساتھ پتنگ بازی کرتے زخموں کی وجہ پوچھی تھی تو آپ کا جواب تھا، ساتھ والی چھت پر جو خاتون نظر آتی تھی، وہ جس کا گھر والا دبئی گیا ہوا تھا، بس کل پتنگ بازی کرتے مجھے یہ یاد ہی نہ رہا کہ آج کل وہ گھر آیا ہوا ہے۔
اس سے پہلے کہ واسکوڈے گاما کچھ کہتا میں نے موضوع بدلتے ہوئے اس سے پوچھا ’’حضور آف شور کمپنیوں کے قصے میں آپ کے عمران خان تو بے گناہ نہیں مارے جا رہے‘‘ زیرِلب مسکراتے واسکوڈے گاما کا جواب تھا ’’سقراط کو جب زہر کا پیالہ پینے کو کہا گیا تو اس کے شاگرد زار وقطار رونے لگے، یہ دیکھ کر سقراط بولا ’’تم کیوں رورہے ہو‘‘ شاگردوں نے کہا ’’اس لئے کہ آپ بے گناہ مارے جارہے‘‘ سقراط نے کہا ’’کیا تم چاہتے تھے کہ میں گناہ گار ہو کر مارا جاؤں‘‘ جب واسکوڈے گاما کا یہ جواب میرے پلے نہ پڑا تو میں نے اگلا سوال شیخو سے کیا ’’قبلہ ہمارے ہاں بڑے چوروں کو بھی کبھی سزا مل پائے گی‘‘ جواب آیا ’’ٹی وی پر بڑی چوریوں کی خبریں سنتے ایک خاوند نے جب کہا کہ ’’جو بھی چوری کرتا ہے وہ ایک دن ضرور پچھتاتا ہے تو یہ سن کر پاس بیٹھی بیوی بڑے لاڈ بھرے انداز میں بولی ’’اور وہ جو شادی سے پہلے آپ نے میرا دل چرایا تھا‘‘ خاوند جلے بھنے لہجے میں بولا ’’یہی بکواس تو کر رہا ہوں کہ ہر چور ایک دن ضرور پچھتاتا ہے‘‘۔
صاحبو! سچی بات تو یہ کہ نہ تو مجھے واسکوڈے گاما کا جواب سمجھ میں آیا اور نہ شیخو کی بات پلے پڑی، لیکن چلو پھر بھی چند لمحوں کیلئے شیخو اور واسکوڈے گاما کی منطق اور عدالت میں پہنچے پاناما لیکس سمیت ہر ملکی مسئلے کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم صرف چند لمحے ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں تو پی ٹی آئی اور لیگی ترجمانوں کی اندھا دھند بیان بازیاں دیکھ کر بے اختیار وہ اندھا یاد آ جائے کہ جو پولیس میں بھرتی ہونے کیلئے بھرتی سینٹر پہنچا تو پولیس آفیسر نے شدید حیرانی سے پوچھا ’’تمہیں ہم کس لئے بھرتی کریں‘‘ اندھا بڑے اطمینان سے بولا ’’اندھا دھند فائرنگ کے لئے‘‘۔

.
تازہ ترین