• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Beauty Of Taj Mehal

تاج محل مغل شہنشاہ شہاب الدین محمد شاہجہاں کی چہیتی بیگم ممتاز محل کا مقبرہ ہے جس میں وہ خود بھی دفن ہوا‘ آج روئے زمین پر جتنی عمارتیں موجود ہیں‘ نقشے کی دل آویزی‘ عمارت کی خوبصورتی اور نزاکت‘ گل کاری اور شان و شوکت میں کوئی بھی تاج محل کے مقابلے پر نہیں ہے۔ جب سے یہ دنیا آباد ہوئی ہے‘ ایسا مقبرہ آج تک نہ تعمیر کیا جا سکا ہے اور نہ ہی رہتی دنیا تک تعمیر کیا جا سکے گا۔ جب تک تاج محل موجود ہے لوگوں کے دلوں میں شاہجہاں اور ممتاز محل کے نام ہمیشہ تازہ رہیں گے۔ یہ عمارت نہیں بلکہ ایک صاحب دل شہنشاہ کے عشق نے اپنے راز کے چہرے سے پردہ اُٹھا دیا ہے اور پتھروں کو نوک مژگاں سے پرو کر پیوستہ کر دیا ہے۔ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں کی طرح ممتاز محل بھی سمجھداری اور خوبصورتی میں بے مثال تھی۔ شاہجہاں خود تو مغلیہ سلطنت پر حکومت کرتا تھا لیکن اس کے دل پر ممتاز محل حکومت کرتی تھی۔ یہ پڑھی لکھی اور وفادار ملکہ ہر مصیبت میں خاوند کے کام آئی تھی اور اس کی مدد کرتی تھی۔ شاہجہاں اسے بے حد چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خاتون نے اس کا اس وقت ساتھ دیا جب وہ اپنے باپ شہنشاہ ہند نورالدین محمد جہانگیر کا معتوب تھا اور سب اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ شاہجہاں کو ملکہ ممتاز محل کی دانائی اور قابلیت پر اس قدر بھروسہ تھا کہ شاہی مہر بھی اس کے حوالے کر رکھی تھی۔ ممتاز محل کا اصل نام ارجمند بانو تھا‘ وہ ملکہ نورجہاں کے بھائی آصف خان کی بیٹی تھی۔ شہزادہ خرم (شاہجہاں) سے اس کی شادی 1614ء میں ہوئی ۔اس وقت شاہجہاں کی عمر 22 سال اور ارجمند بانو کی عمر بیس سال تھی۔ ملکہ ممتاز محل کا انتقال 1631ء میں دکن سے واپسی پر برہان پور کے قریب ہوا‘ شہنشاہ کے لئے یہ سانحہ اس قدر غم افزاء ثابت ہوا کہ ایک ہی سال میں بال سفید ہو گئے‘ اپنے غم کو موتیوں میں پرونے کے لئے اس نے تاج محل کی تعمیر کا حکم دیا۔ سترہ سال کی محنت و مشقت اور تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے کی لاگت سے یہ نادر روزگار عمارت نہایت اعلیٰ سنگ مرمر سے تیار ہوئی۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ”چاندنی رات میں اس خالص موتی کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے سنگ مرمر پانی سے زیادہ رواں دواں ہے اور وہاں ایک دم کے لئے ٹھہر جانا ہمیشگی سے زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔“ تاج محل کا گنبد عمودی شکل کا ہے اور اندر باہر سے سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ گنبد کا گیارہ فٹ اونچا کلس سونے کا ہے۔ گنبد کے درمیان قبر کا تعویذ ہے جہاں ممتاز محل ابدی نیند سو رہی ہے۔ تاج محل کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے مختلف شاعروں نے اپنا سارا زور قلم صرف کر دیا ہے۔ اس کی خوبصورتی ہر موسم میں‘ خواہ دن ہو یا رات دیکھنے والوں کو لبھاتی ہے۔ تاج محل صبح کو سورج کی ہلکی روشنی میں سنہری دکھائی دیتا ہے‘ شام کو ڈوبتے سورج کی روشنی پڑتی ہے تو گلابی نظر آتا ہے اور چاندنی رات میں یوں لگتا ہے جیسے چاند خود آسمان سے اُتر کراس عمارت میں جذب ہو گیا ہو۔ چند سال پہلے جب تاج محل کو میں نے اپنے سامنے دیکھا تو اس وقت کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ ایک عجیب ناقابل بیاں سا تصور ذہن میں آیا کہ ملکہ ممتاز محل کی روح اس عمارت میں ہر طرف چل پھر رہی ہے یا یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی پری پھول اوڑھے ہوئے اور ہیرے جواہرات کا خوب لباس پہنے کھڑی ہے۔ فرگوسن کے بیان کے مطابق:”آگرہ کا تاج محل اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا کا واحد مقبرہ ہے جہاں فن اور فطرت کو اس خوبصورت انداز میں یکجا کر دیا گیا ہو۔ تاج محل دنیا میں عشق و محبت کی بہترین یادگار ہے۔ یہ اپنی تعمیر اور نمونے کے اعتبار سے مکمل ترین ہے‘ اسے ”پتھر میں غزل“ سے تشبیہ دی جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ بعض اوقات اسے ”سفید پتھر میں خواب“ کے نام سے بھی پکارا گیا‘ اسے ابدیت کے رخسار پر لافانی آنسو بھی کہا گیا ہے۔“ اس عمارت کی بلندی دردبھری آہ پیدا کرتی ہے اور سورج چاند کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہائیں۔ فرگوسن ایک اور جگہ لکھتا ہے: ”یہ اس کے بنانے والے کے درد کی وجہ سے متبرک ہو گیا ہے‘‘ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بابری مسجد کی طرح تاج محل بھی ایک مندر تھا جسے شاہجہاں نے گرا کر یہ مقبرہ تعمیر کروایا۔ تاج محل ہندوستان کی پہچان بن چکا ہے لیکن حکومت اس کی حفاظت اور خوبصورتی برقرار رکھنے کے سلسلہ میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ آگرہ شہر اور اس کے گردونواح میں فیکٹریوں کے دھوئیں کی وجہ سے تاج محل کا حسن متاثر ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا حساس پتھر دھندلا رہا ہے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب صبح کی روشنی سے سنہری اور شام کو گلابی رنگوں کا ہونا ایک خواب بن جائے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ان فیکٹریوں کو آگرے کی حدود سے کہیں اور منتقل کر دیا جائے لیکن حکومت نے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا ۔

تازہ ترین