• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقرا کے لفظ سے پڑنے والی مضبوط بنیاد پر قائم مذہب اور 14سوسال پہلے وجہ تخلیق کائنات، رحمت العالمین نبی کریم حضرت محمدﷺ کےواضح فرمان کہ ’’علم حاصل کرنا ہرمرد اور عورت پر فرض ہے‘‘ امتی اس نصحیت کےحقیقی مقصد کو سمجھے نہ اس پر عمل پیرا ہوئے، نااہلی اور نارسائی مقدر ٹھہری، نتیجتاً مسلم امہ آج تک بدترین بحرانوں کا شکار ہے۔
قارئین کرام، قیام پاکستان سے پہلے برصغیر میں گورے کی حکمرانی کےمضبوط نظام حکومت کی بنیاد کامیاب فوجی حکمت عملی اور نظام کو اپنی مرضی سے چلانے کیلئے سول بیوروکریسی کو اہم و کلیدی کردار سونپنا تھا، ’’قابل‘‘ افسران کا چنائؤ مشکل مرحلہ تھا جس کیلئے برصغیر بھر میں مقابلے کا امتحانی نظام رائج کیا گیا، کامیاب ہونے والے امیدواروں کو خصوصی تربیت کےبعد تحصیل، ضلع اور پھر اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر تعینات کیا جاتا، تب سے ’’نوکرشاہی‘‘ کی اصطلاح زبان زد عام ہوئی اور آج تک آب وتاب سے ’’چمک‘‘ رہی ہے۔ پاکستان بننے کےبعد سے سی ایس ایس کےنام سے اس امتحان میں انگریزی بنیادی اور اہم ترین مضمون ہے، تاہم برسوں سےجاری امتحان کے پیپر پیٹرن کو بدلتے حالات کےمطابق تبدیل اور نئے مضامین شامل کرنے کا اقدام کیا گیا تو2016 کے نتائج نےوطن عزیز میں جاری ’’رٹے‘‘ پر مبنی نظام تعلیم کی ناصرف قلعی کھول کر رکھ دی بلکہ معیار تعلیم کو ’’بلند‘‘ کرنے کے دعوؤں پر زناٹےدار طمانچہ بھی رسید کر دیا۔ معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ کو پڑھتے جائیے اور شرماتے جائیے، 20ہزار 717امیدواروں میں سے آدھے امتحان میں بیٹھے اور صرف 202کامیاب ہوئے، انگریزی تعلیم کو پاکستانی قوم کامیابی کا زینہ سمجھتی ہے زبردستی انگریزی نگلنے کی کوشش میں حال یہ ہوا کہ انگلش پریسی اور کمپوزیشن میں92فیصد جبکہ انگلش مضمون لکھنے میں 81فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ بری طرح ناکام رہے، دیگر اہم مضامین کےساتھ ریاضی میں بھی 94فیصد طلبا فیل ہوئے، حد تو یہ ہےکہ قومی زبان اردو لٹریچر کاپرچہ بھی 23فیصد کیلئے جان کا عذاب ثابت ہوا، یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 95صد طلبہ پرچوں میں دئیے گئے سوالات کو سمجھ ہی نہیں سکے جواب کیا دیتے، امتحان دینے والے 90فیصد مضامین میں اپنی ذہانت، قابلیت، علم اور اس کےعملی مظاہرے میں کسی طور کامیاب نہیں ہوئے، زیادہ تر طلبہ سوالوں کےجواب لکھتے ہوئے مسلسل اسپیلنگ کی غلطیاں دہراتے رہے۔
اب آئیے ان شرمناک نتائج کی حقیقی وجوہات وعوامل کی طرف تو واضح نظر آ رہا ہے کہ نظام تعلیم جس میں برسوں سے تحقیق و تخلیق کی بجائے، ہر سطح پر ہر ایک طبقے کیلئے کئی نوعیت کےنصاب اور مختلف تعلیمی نظام رائج ہیں، اس بدنصیبی کے پوری طرح ذمہ دار ہیں تاہم یہ جواز کافی نہیں، موجودہ دور کے استاد(تمام نہیں) کی علم و قابلیت کی طرف ایک نظر دیکھیں تو شاید نظر شرما کر پلٹ آئے گی کیونکہ نظام سے گلہ تو بعد کی بات، صرف اساتذہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے تو شاید نتیجہ کچھ مختلف ہوتا۔ اس قضیے میں طلبہ بھی پوری طرح قصوروار ہیں جنہیں پڑھائی کےجدید طریقے تو معلوم ہیں لیکن سمجھ بوجھ سے عاری رٹا سسٹم اور محض ایک امتحان کے بعد دوسرا امتحان پاس کرکے ڈگری کا حصول ہی ان کی زندگیوں کا مقصد عظیم ہے۔ ملک میں ڈکٹیٹرشپ ہو یا جمہوری نظام بیوروکریسی کا محتاج ہوتاہے، ڈکٹیٹر اپنےدور کو دوام دینے جبکہ جمہوریت پسند عوامی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ہمیشہ بیوروکریسی کا ہی سہارا لیتے ہیں، المیہ یہ ہےکہ عوام کے منتخب نمائندے ملکی نظام کو ٹھیک کرنے کے کلیدی و بنیادی جزو ’’تعلیم‘‘ جیسے اہم ترین شعبے کو دہائیوں سے نظر انداز کرنے کے اصل مجرم ہیں، پرانے ادوار کی بجائے دیکھا جائے تو موجودہ جمہوری حکومت کےمنشور میں تعلیم کو اولین ترجیح بنانے اور اس کا بجٹ کم سے کم 4فیصد رکھنے کا وعدہ بھی دیگر کئی وعدوں کی طرح شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ سونے پر سہاگہ ملک کی تیسری مرتبہ باگ ڈور سنبھالنے والے ’’فادر آف دی نیشن‘‘ اسلام آباد کے ایف ایٹ میں واقع ایک ہی سرکاری اسکول کا دورہ کرکے اپنی علم دوستی کا ثبوت اور فرض کی ادائیگی سمجھتے ہیں، مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے اسی حلقے سے ایک وزیر مملکت صاحب ’’بیٹی‘‘ کیلئے آئندہ انتخاب لڑنے اور جیت کی راہ ہموار کرنے کی خاطر ساری ’’تعلیمی اصلاحات‘‘ اسی اسکول میں لانے میں سرکرداں ہیں، ’’جدید تعلیم‘‘ رائج کرنے کے لئے کروڑوں کا ٹھیکہ پہلے ہی ایک پرائیویٹ اسکول گروپ کو دیا جا چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم پورے ملک کےہیں تو 20کروڑ افراد کے دکھ اور مشکلات کا ازالہ بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے، بھلے سے اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کی ذمہ داری بن چکا لیکن ملک میں بھر میں یکساں اور جامع نظام تعلیم تو وزیراعظم صاحب آپ ہی رائج کرسکتے ہیں، وفاقی دارالحکومت کےچند اسکولوں کو بسیں فراہم کرنا قابل قدر لیکن معیار تعلیم اور اس میں اصلاحات کون لائے گا؟ قومی زبان کے ساتھ انگریزی کو مضمون کی بجائے زبان (لینگوئج) کےطور پر پہلی کلاس سے نصاب کا حصہ بنانا ہوگا، متوسط طبقے سے لے کر ’’ایلیٹ کلاس‘‘ تک انگریزی زبان پہلی ترجیح بلکہ کمزوری بن چکی ہے لیکن عقل مندی کا تقاضا ہےکہ انگریزی زبان کو مجبوری و معذوری بنانے کی بجائے اس کو اپنی قوم کی کامیابی کا ہتھیار بنایا جائے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو سی ایس ایس کا بدترین نتیجہ نشاندہی کر رہا ہے کہ ہم قابلیت کے کس درجے پر کھڑے ہیں۔ حالات کی بہتری کیلئے اساتذہ کو بھی جدید تقاضوں اور چینلجز کے مطابق خود کو ڈھالنے کے مسلسل عمل کا حصہ بننا ہوگا، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں کے درمیان تفاوت اور خلیج کو ختم کر کے یکساں نظام تعلیم کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، طلبہ کے اندر محض کتابی کیڑا بننے اور امتحان کی خاطر پڑھنے کے رجحان کو ختم کرکے انہیں عملی، تحقیقی اور سوچ بچار کے ذہانت کے معیار میں پرکھنے کے قابل بنانا ہو گا، ورنہ ملک کے اعلیٰ ترین قابلیت کے امتحان کے اس سال 2فیصد نتیجہ کے بعد آئندہ برسوں میں اس سے بھی ’’حیران کن‘‘ نتائج موجودہ تعلیمی نظام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا، سیاست سے بالاتر ہو کر حکمران مزید طاقتور بننا چاہتے ہیں تو انہیں عوام کے دل جیتنے ہوں گے قابل افسر نہیں قابل طالب علم پیدا کرنا ہوں گے کیونکہ انگریز کے طرز حکمرانی کی طرح خود کو مضبوط اور موثر کرنے کی خواہش بلاشبہ آپ کا حق ہے لیکن جب زمین پر نوری مخلوق سمجھنے والے بیوروکریٹس پیدا کرنے کا سامان ہی نہ رہے گا تو دور چاہے مارشلائی ہو یا جمہوری ملکی نظام کو چلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہو گی!

.
تازہ ترین