• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، جنوبی ایشیاء دنیا میں سب سے الگ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے دکھ سب سے نرالے ہیں۔ قدیم تہذیبوں کے چند مٹے مٹے سے نقوش کھنڈر بن کر تو اب بھی موجود ہیں لیکن گزشتہ صدیوں کی حیرت انگیز تبدیلی اور ترقی نے اس بدنصیب خطے کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ یہ وہ بات ہے کہ جو میں کئی حوالوں سے کہتا رہا ہوں۔ یوں تو ساری دنیا اپنے اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رنگ باز کا امریکی صدر بن جانا عالمی انتشار کی ایک اہم مثال ہے۔ پھر بھی، جو وحشتیں ہمالیہ کے سائے میں پل رہی ہیں ان کا احساس سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مائوف کرنے لگتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ وحشتیں ذاتی اور خاندانی زندگیوں میں خلل بھی پیدا کرسکتی ہیں۔ اس ہفتے میں نے جو یہ ذکر چھیڑا ہے تو اس کی وجہ اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی جنوبی ایشیا کی خواتین کی ایک کانفرنس ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں ان خواتین نے شرکت کی جو مقامی طور پر متحرک ہیں یعنی اپنی اپنی تنظیمیں چلا رہی ہیں۔ منگل اور بدھ کی اس کانفرنس میں علاقے بلکہ سارک کے تمام ممالک کی نمائندگی تھی۔ گویا یہ ایک اہم اجتماع تھا اور کئی اداروں نے مل کر اس کا اہتمام کیا تھا۔ میں منگل کی کارروائیوں میں شریک تھا اور مجھے یہ موقع ملا کہ میں پورے دن کے اجلاسوں کو سامنے رکھ کر اپنے تاثرات بیان کروں۔ یہ کالم کئی معنوں میں ان ہی تاثرات کی بازگشت ہے کیونکہ کانفرنس کی تقریروں اور عالمانہ تجزیوں کو سمیٹنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں اس بات کی بھی گنجائش نہیں کہ میں جنوبی ایشیاکی خواتین کے اتحاد کی اہم شخصیتوں اور منتظمین کے نام گنوائوں۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ یہ وہ بے بدل اور بے بہا لیکن سر پھرے افراد ہیں (اور یہاں خواتین پر زیادہ نظر ہے) کہ جو دشمنی، نفرت، انتہاپسندی اور قدامت پرستی کی یلغار کے سامنے امن، دوستی، سماجی انصاف اور خواتین کی آزادی کا پرچم اٹھائے کھڑے ہیں۔ جنوبی ایشیاکے ماحول میں کہ جس کی ایک خصوصی صورت حال پاکستان میں خوف اور دہشت کی پیش قدمی سے نمایاں ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے عزم اور ہمت کے ساتھ ساتھ ایک روشن دماغ اور درد مند دل کی بھی ضرورت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے غالب کو یاد کریں تو صحرا کی باغبانی کا قانون لکھا ہے۔
جنوبی ایشیاء میں خواتین کی حیثیت اور ان کی محرومیوں یا کامرانیوں پر نظر ڈالیں تو صحرا بھی دکھائی دیتا ہے اور ایک دو نخلستان بھی۔ میں نے کہا نا کہ جنوبی ایشیاء سب سے الگ ہے۔ سو جن خواتین رہنمائوں نے حکومت اور ریاست کی سربراہی کی ان میں جنوبی ایشیاء دنیا میں سب سے آگے ہے۔ ترقی یافتہ مغرب یا معاشی ترقی کے معجزے دکھانے والے مشرق بعید میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ کئی نام آپ کو یاد آگئے ہونگے۔ لیکن ان خواتین رہنمائوں نے خاندانی سیاست میں عروج حاصل کیا۔ اور اس تصویر کا دوسرا رخ بھی بالکل واضح ہے۔ عورتیں ہمارے معاشرے میں کتنا ظلم سہتی ہیں اور ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کی مثالیں ہمیں اپنے میڈیا میں ہر روز ملتی ہیں۔ غیرت کے نام پر جو قتل ہوتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں موجود اندھیرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے مختلف ملکوں میں منفی مساوات کے اعدادوشمار مختلف ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پورا خطہ سماجی اور معاشرتی پسماندگی کے حصار میں ہے۔ یہ بھی ماننا چاہئے کہ اس حصار سے نکلنے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور جنوبی ایشیاء چھوٹے چھوٹے قدموں سے کچھ آگے بھی بڑھا ہے۔ لیکن یہ نہیں ہوپارہا کہ پھو پھٹے اور نئی زندگی نظر آجائے۔آخر اس مایوسی کی بنیاد کیا ہے؟ میں نے جو گفتگو کی اس میں اس نکتے پر خاصی توجہ دی کہ ملکوں کے درمیان اور خاص طور پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جو مخاصمت ہے اور جس طرح ایک جنگ کی سی کیفیت موجود رہی ہے اس نے اس خطے کو آگے بڑھنے سے روکا ہوا ہے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ جو وسائل دفاع پر خرچ کئے جاتے ہیں ان سے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کی غربت بڑھ جاتی ہے۔ میری نظر میں ایک دوسرا نقصان زیادہ زہر آلود ہے۔ وہ یہ کہ ملکوں کی دشمنی معاشرے میں انتہاپسندی، عدم برداشت اور قدامت پرستی بلکہ دہشت گردی کی بھی معاونت کرتی ہے۔ خواتین کا حوالہ ہو تو تشدد، افراتفری اور عدم تحفظ سے سب سے زیادہ تکلیف خواتین اور بچوں کو ہوتی ہے۔ ایک اور بات بھی سمجھنے کی ہے کہ معاشرہ کو بدلنے کا اور ترقی کے عمل کو تیز کرنے کا سب سے اچھا نسخہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دی جائے۔ جنوبی کوریا جیسے ملکوں نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ اپنے مشکل دنوں میں جنوبی کوریا نے بچیوں کی تعلیم پر زور دیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا، تاریخ میں درج ہے۔ میرا خیال ہے کہ طالبان اس راز سے واقف ہیں۔ اسی لئے انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اتنی مخالفت کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کو کس طرح تباہ کیا جاتا تھا۔ ملالہ کی کہانی بھی انتہائی سبق آموز ہے یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے معاشرے کی انتہاپسندی، قدامت پرستی اور مغرب دشمنی نے ملالہ کو عوامی سطح پر ناپسندیدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم سے آگے بڑھ کر بھی، یہ تسلیم کیا جانا چاہئے کہ خواتین ہی تبدیلی کا اصل جوہر ہیں۔ مجاز نے تو 80سال پہلے آنچل سے ایک پرچم بنالینے کا پیغام دیا تھا۔ اور اس تبدیلی کا آغاز کہاں سے ہوگا؟ اقتدار کے ایوانوں یا بڑے گھروں کی نشست گاہوں سے نہیں بلکہ ان گلی کوچوں اور محلوں اور بستیوں سے کہ جہاں متوسط اور غریب طبقے کی خواتین رہتی ہیں۔ یہ کانفرنس ان خواتین کی تھی جو اس سطح پر اپنی تنظیمیں چلاتی ہیں اور پسماندہ خواتین کو بیدار کرتی ہیں۔ ان سے مل کر خواتین کے بارے میں میرے جو خیالات ہیں ان کو تقویت ملی۔ یہ ڈھارس بندھی کہ گہرے اندھیرے میں کہیں روشنی کی ایک کرن موجود ہے۔

.
تازہ ترین