• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عیسائی مذہب کی مقدس کتاب انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک واقعہ روایت ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ فاریسیوں (یہودیوں کا ایک فرقہ) کا ایک گروہ ایک عورت کو لے کر آیا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اسکی سزا تجویز کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پرجوالزام تھا یہودی مذہب میں اسکی سزا سنگساری تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فاریسیوں سے کہا کہ اسے سزا ضرور دو لیکن پہلا پتھر وہ شخص مارے گا جو خود گنہگار نہ ہو۔ سارے فاریسی لوٹ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس عورت سے کہا کہ میں بھی تمہیں کوئی سزا نہیں سناتا، جائو اور آئندہ گناہ نہ کرنا۔
کرپشن ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں اسقدر سرایت کر چکی ہے کہ یہ اب فرد کے معاشرتی رویے اور ہمارے نظام کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ جب کوئی عادت یا برائی افراد کے معاشرتی رویے کا حصہ بن جائے تو معاشرے کا نظم و نسق، ادارے، قوانین، ضابطے یعنی پورے کا پورا نظام اس معاشرتی برائی کیلئے گنجائش پیدا کر لیتا ہے، اس کا اثر مزید بڑھے تو نظام خود کو اس معاشرتی برائی کے مطابق ڈھال لیتا ہے، اگر وہ معاشرتی برائی مزید جڑ پکڑ جائے تو نظام خود اس معاشرتی برائی کا تحفظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ معاملہ اگر اس سے بھی زیادہ بڑھ جائے تو معاشرتی برائی اور نظام دونوں یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں اور معاشرے کے ہر فرد سے اسی معاشرتی برائی والے رویے کی توقع کی جانے لگتی ہے۔ اور اگر کوئی فرد اس معاشرتی برائی پر عمل پیرا نہ ہو تو وہ معاشرے کیلئے پرایا ہو جاتا ہے۔ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ کرپشن کے حوالے سے ہمارا نظام اور انفرادی رویہ اسی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔
میں نے ایماندار لوگوں کو جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں، ہر جگہ پریشان حال دیکھا ہے۔ نظام کرپشن کے ساتھ اسقدریک جان ہے کہ ایماندار شخص چاہے وہ چیف سیکرٹری ہی کیوں نہ لگا ہو، کیلئے دووقت کی روٹی کا بندوبست کرنا اور بنیادی فرائض ادا کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح شاید وہ لوگ جو انتہائی کرپٹ ہوتے ہیں، وہ بھی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ غالب اکثریت البتہ ’’تھوڑی خوشی، تھوڑا غم‘‘ والی پالیسی پر گامزن ہے، اسی فارمولے سے وہ اپنی بقا اور ترقی اگر کر سکیں، کو یقینی بناتی ہے۔ پھر ہر شعبے کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ بیوروکریسی خواہ سول ہو یا ملٹری، کیلئے کرپشن فائلوں سے شروع ہوتی ہے اور فائلوں ہی میں دفن ہو جاتی ہے اور پھر وہ فائلیں خود بھی ریکارڈروم کی گرد آلود الماریوں میں کہیں دفن ہو جاتی ہیں۔ کوئی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ انہیں نہیں ڈھونڈ سکتا۔ کاروباری لوگ کھاتوں، ریٹرنوں، تحفوں اور احتجاجوں کے ذریعے اپنی کرپشن کا اہتمام کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کے لوگوں کے پاس بھی اپنا ’’دانہ پانی‘‘ پورا کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جو عوامی توجہ سے چھپے رہتے ہیں۔ نظامِ عدل سے منسلک شعبوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ آثاراوراطوار سے تو نظر آ سکتا ہے لیکن اس پر عوامی عدالت بہرحال نہیں لگتی۔ لیکن سیاستدان کی کرپشن ہر وقت عوامی نظر میں رہتی ہے، اس پر رات کو پرائم ٹائم شوز کی عدالت لگتی ہے، دن کو انہیں اخباروں کی شہ سرخیوں، اداریوں اور کالموں کی جرح کا سامنا رہتا ہے، پارلیمان میں اس پر لے دے ہوتی ہے، جمہوریت دشمن قوتوں کیلئے ہر وقت حکومتیں گرانے یا دبائو میں لانے کیلئے بہانے کے کام آتی ہے، مخالف سیاسی جلسوں میں نعروں کی صورت عوامی عدالت میں گونجتی ہے اور ’’مولانا فلاں‘‘، ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ جیسے القابات سے معاشرتی لاشعور میں پیوست ہو جاتی ہے۔اگر میں بابوئوں، تاجروں، صحافیوں، ججوں، جرنیلوں کے حوالے سے کہہ دوں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں تو فورا sweeping statement دینے کا الزام لگے گا، ان شعبوں کے ملک وقوم پر ’’احسانات‘‘ گنوائے جائیں گے، استثنیات کے قانون کے بارے میں توجہ دلوائی جائے گی۔ لیکن اگر میں سیاستدانوں کے حوالے سے کہہ دوں کہ سب چور ڈاکو ہیں تو تالی بجے گی اور سب سے زیادہ تالیاں وہی لوگ بجائیں گے جنکا پہلے ذکر کر چکا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ سارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔ اگر سارے سیاستدان کرپٹ ہیں تو پھر نوازشریف کو اس پیمانے پر نہیں پرکھا جائے گا کہ وہ کرپٹ ہیں یا نہیں بلکہ اس پیمانے پر پرکھا جائے گا کہ کیا وہ دوسروں سے زیادہ کرپٹ ہیں یا کم؟ کیا وہ اس حد سے زیادہ کرپٹ ہیں جو نظام کا حصہ ہے اور جس کے بغیر کوئی بھی سیاستدان پاکستان میں سیاست نہیں کر سکتا؟ دوسرے لفظوں میں نواز شریف کو ایک مثالی (idealistic) کسوٹی پر نہیں پرکھا جائےگا بلکہ کرپشن کے رسیا ہمارے نظام اور معاشرے کے سیاق و سباق میں موازنہ جاتی ( comparative) معیار پر پرکھا جائے گا۔ یعنی عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ نواز شریف،آصف زرداری اور عمران خان سے زیادہ کرپٹ ہیں یا کم؟ نواز شریف کی وفاق اور پنجاب میں حکومت سندھ میں آصف زرداری اور خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت سے زیادہ کرپٹ ہے یا کم؟
عدالتی کارروائی میں زندگی کے صفحات کی بات ہوئی ہے۔ اگر صفحات پورے کرنے لگیں تو ہمیں کسی سیاستدان کی زندگی کی پوری کتاب نہیں ملےگی۔ کسی بیوروکریٹ، تاجر، صحافی، جج یا جرنیل کی کتاب ٹٹولنے بیٹھیں گے توپورے صفحے وہاں بھی نہیں ملیں گے۔ حکمران طبقے کو چھوڑ دیں پوری کتاب تو کسی عام آدمی کی زندگی کی بھی نہیں ملے گی۔ نواز شریف پر سنگباری تو ہر شخص کر رہا ہے لیکن اگر اصول یہ ہوتا کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کرپشن نہ کی ہو تو کوئی نظر نہ آتا۔ ’’اللہ کی شان ہے کہ شیخ رشید اور عمران خان جیسے لوگ نواز شریف کے جھوٹ بولنے پر نااہل کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔آرٹیکل 62 اور 63 کی کسوٹی پر پرکھا گیا تو ریاست اور معاشرے کے سارے ستون دھڑام سے گر جائیں گے۔ پانامہ لیکس کیس میں اب ساری بحث انہی آرٹیکلز پر مرکوز ہوگئی ہے۔ نواز شریف کٹہرے میں ہیں اورانکے مستغیث عمران خان خود ہی اپنے آپ کو ان آرٹیکلز پر پرکھے جانے کیلئے پیش کر چکے ہیں(انکے خلاف کیس پہلے ہی زیر لتوا ہیں)۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عدالت حضور نواز شریف اور عمران خان والے کیس اکٹھے کر دے اور دونوں کا آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق میرٹ پر فیصلہ سنا دے۔ ایسا نہ ہو کہ اسطرح بلاول بھٹو کا اگلا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہو جائے۔

.
تازہ ترین